میرے پاس کچھ مال صدقہ کا ہے جو غرباء میں تقسیم کیا جائے گا ، کیا میں اس مال کو کسی ہاشمی یا سید کو بطورِ قرض دے سکتا ہوں؟ وہ بعد میں واپس کردے گا۔
اگر ایک شخص دوسرے شخص کو وکیل بنا کر صدقہ کا مال دے کہ وہ کسی مستحق کو دے دے تو چوں کہ وکیل اپنے مفوضہ کام ہی کا پابند ہوتا ہے، دیگر تصرفات کا مجاز نہیں ہوتا، اس لیے وکیل کے ذمہ لازم ہو گا کہ وہ صدقہ کا مال مستحقین تک پہنچا دے، وکیل کے لیے جائز نہیں کہ وہ صدقہ کا مال کسی ہاشمی یا سید کو دے دے، اگر قرض دے دیا تو اس قدر رقم کا ضامن ہو گا۔
البتہ اگر صدقاتِ واجبہ نہ ہوں، اور سید بہت ضرورت مند ہو اور موکل (مالک) کی طرف سے مطلق اجازت ہو کہ کسی بھی مستحق کو دے سکتے ہیں تو نفلی صدقے سے چوں کہ سید کا تعاون جائز ہے، اس لیے قرض دینے کے بجائے ملکیتاً بھی دیا جاسکتاہے۔ تاہم اگر موکل نے مخصوص فقراء میں ہی تقسیم کرنے کے لیے رقم دی ہو، یا صدقاتِ واجبہ کی رقم ہو تو سید کو دینا جائز نہیں ہوگا، اور اگر سید کو زیادہ ضرورت نہ ہو تو نفلی صدقہ بھی نہ لینا افضل ہے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144103200701
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن