بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

صارم، سارم یا ثارم نام رکھنا


سوال

’’صارم‘‘، ’’سارم‘‘، اور ’’ثارم‘‘ میں سے کون سا نام درست ہے؟ ان تمام ناموں کا مطلب کیا ہے؟ ان تمام ناموں کا حوالہ کیا ہے؟ اور کس  سے منسوب ہیں؟

جواب

’’صَارِم‘‘ کے معنی:  تیز   دھار  تلوار،  بہادر آدمی، ارادے کا پکا اور کرگزرنے والا آدمی کے آتے ہیں۔

الصَّارِمُ : (معجم الوسيط) :

"الصَّارِمُ يقال: سيفٌ صارِمٌ: قاطعٌ. ورجلٌ صارِمٌ: شجاعٌ، أَو باتٌّ في أمره ماضٍ".

’’ثَارِم‘‘  کے حروفِ اصلی ’’ث رم‘‘ ہیں، جس کے معنی ’’ٹوٹنے ‘‘ کے آتے ہیں۔

ثَرِم : (معجم الوسيط) :

"ثَرِم ثَرَمًا: انكسرت سِنُّه. ثَرِم سقطت من أصلها فهو أَثْرمُ، وهي ثرماء. والجمع : ثَرِم وفي الحديث: حديث شريف نَهَى أن يُضَحَّى بالثَّرْماء".

’’سَارِم‘‘ کے حروفِ اصلی ’’س ر م‘‘  ہیں، مجرد میں اس کی تصریف (گردان) نہیں مل سکی، بطورِ اسم مجرد میں مستعمل ہے، لیکن اس کا معنیٰ مناسب نہیں ہے، البتہ بابِ تفعیل سے اس کے معنی  ’’قطع کرنے، جدا کرنے‘‘ کے آتے ہیں، اس باب سے بطورِ صفت (اسمِ فاعل) ’’مُسَرِّم‘‘ استعمال ہوگا، یعنی (دشمن کو) کاٹنے والا، بہادر آدمی، یا کاٹ دار تلوار۔

سَرَّم : (معجم الرائد) :

"سرم -تسريمًا- (فعل) 1- سرم الشيء : قطعه".

پس صورتِ مسئولہ میں ’’ثَارِم‘‘ ( ث کے  ساتھ) یا ’’سَارِم‘‘ ( س کے ساتھ) نام نہ رکھیں۔ البتہ ’’صَارِم‘‘  نام (مذکورہ معنیٰ کا اعتبار کرتے ہوئے) رکھ سکتے ہیں، تاہم بہتر یہ ہے کہ انبیاءِ کرام علیہم السلام یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی کے نام پر نام رکھیں۔

 تاہم ’’صَارِم‘‘  کسی صحابی کا نام نہیں، اس مادہ سے "أُصَیْرِم"  ایک صحابی کا لقب ہے، جو ایمان لانے کے فوراً  بعد اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے تھے، جیساکہ مسند احمد ۔ جلد نہم ۔ حدیث 3600 میں ہے:

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لوگوں سے پوچھاکرتے تھے کہ ایک ایسے آدمی کے متعلق بتاؤ جو جنت میں داخل ہوگا حال آں کہ اس نے نماز بھی نہیں پڑھی؟ لوگ جب اسے شناخت نہ کرسکتے تو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھتے کہ وہ کون ہے؟ وہ فرماتے: ’’اصیرم‘‘ جس کا تعلق بنو عبدالاشہل سے تھا، اور اس کا نام عمرو بن ثابت بن وقش تھا۔

حصین کہتے ہیں کہ میں نے حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ’’اصیرم‘‘ کا کیا واقعہ ہوا تھا؟ انہوں نے فرمایا: وہ اپنی قوم کے سامنے اسلام لانے سے انکار کرتا تھا، غزوہ احد کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اُحد کی طرف روانہ ہوئے تو اسے اسلام کی طرف رغبت ہوئی اور اس نے اسلام قبول کر لیا، پھر تلوار پکڑی اور روانہ ہوگیا۔ وہ لوگوں کے پاس پہنچا اور لوگوں کی صفوں میں گھس گیا اور اس بے جگری سے لڑا کہ بالآخر زخمی ہو کر گر پڑا، بنو عبدالاشہل کے لوگ جب اپنے مقتولوں کو تلاش کر رہے تھے تو انہیں میدانِ جنگ میں وہ بھی پڑا نظر آیا، وہ کہنے لگے کہ واللہ یہ تو ’’اصیرم‘‘ ہے، لیکن یہ یہاں کیسے آگیا؟ جب ہم اسے چھوڑ کر آئے تھے تو اس وقت تک یہ اس دین کا منکر تھا، پھر انہوں نے اس سے پوچھا کہ عمرو! تم یہاں کیسے آگئے ؟ اپنی قوم کا دفاع کرنے کے لیے یا اسلام کی کشش کی وجہ سے؟ اس نے کہا کہ اسلام کی کشش کی وجہ سے میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آیا اور میں مسلمان ہوگیا، پھر اپنی تلوار پکڑی اور روانہ ہوگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ جہاد میں شرکت کی، اب جو مجھے زخم لگنے تھے وہ لگ گئے، تھوڑی دیر میں وہ ان کے ہاتھوں میں دم توڑ گیا۔ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ اہلِ جنت میں سے ہے۔

’’حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ حَدَّثَنِي الْحُصَيْنُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ يَقُولُ: حَدِّثُونِي عَنْ رَجُلٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ لَمْ يُصَلِّ قَطُّ؟ فَإِذَا لَمْ يَعْرِفْهُ النَّاسُ سَأَلُوهُ مَنْ هُوَ؟ فَيَقُولُ: أُصَيْرِمُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ عَمْرُو بْنُ ثَابِتِ بْنِ وَقْشٍ. قَالَ الْحُصَيْنُ: فَقُلْتُ لِمَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ: كَيْفَ كَانَ شَأْنُ الْأُصَيْرِمِ؟ قَالَ: كَانَ يَأْبَى الْإِسْلَامَ عَلَى قَوْمِهِ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ وَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُحُدٍ بَدَا لَهُ الْإِسْلَامُ فَأَسْلَمَ، فَأَخَذَ سَيْفَهُ فَغَدَا حَتَّى أَتَى الْقَوْمَ فَدَخَلَ فِي عُرْضِ النَّاسِ، فَقَاتَلَ حَتَّى أَثْبَتَتْهُ الْجِرَاحَةُ، قَالَ: فَبَيْنَمَا رِجَالُ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ يَلْتَمِسُونَ قَتْلَاهُمْ فِي الْمَعْرَكَةِ؛ إِذَا هُمْ بِهِ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَلْأُصَيْرِمُ وَمَا جَاءَ، لَقَدْ تَرَكْنَاهُ وَإِنَّهُ لَمُنْكِرٌ هَذَا الْحَدِيثَ، فَسَأَلُوهُ مَا جَاءَ بِهِ؟ قَالُوا: مَا جَاءَ بِكَ يَا عَمْرُو أَحَرْبًا عَلَى قَوْمِكَ أَوْ رَغْبَةً فِي الْإِسْلَامِ؟ قَالَ: بَلْ رَغْبَةً فِي الْإِسْلَامِ، آمَنْتُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَسْلَمْتُ، ثُمَّ أَخَذْتُ سَيْفِي، فَغَدَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَاتَلْتُ حَتَّى أَصَابَنِي مَا أَصَابَنِي، قَالَ: ثُمَّ لَمْ يَلْبَثْ أَنْ مَاتَ فِي أَيْدِيهِمْ، فَذَكَرُوهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ‘‘. (الإصابه في تمييز الصحابة مؤلف : أحمد بن علي بن حجر العسقلاني، ناشر : دار الجيل - بيروت)

نیز  ’’ص ر م‘‘  کے مادہ سے اصرم نام کے حوالے سے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے نا پسندیدگی کا ذکر احادیث میں ملتا ہے، جیساکہ:سنن أبي داود ـ محقق وبتعليق الألباني - (4 / 443) 4956 - میں ہے:

"حدثنا مسدد حدثنا بشر - يعنى ابن المفضل - قال حدثني بشير بن ميمون عن عمه أسامة بن أخدري أن رجلًا يقال له: "أصرم" كان فى النفر الذين أتوا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « ما اسمك ». قال أنا أصرم. قال: « بل أنت زرعة »". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200149

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں