بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شیعہ سے نکاح جائز ہے یا نہیں اور اس کی وجہ کیا ہے؟


سوال

ہمارے ایک دوست ہیں جو دیوبندی  ہیں اور ان کی بیوی شیعہ ہیں، ہمیں جہاں تک علم ہے کہ اس طرح نکاح جائز نہیں، دوست بضد ہے کہ مجھے حدیث دکھائیں۔ اگر جا ئز ہے تو راہ نما ئی فرما دیں، اور ہماری اصلاح کریں!

جواب

واضح رہے کہ مسلمان مرد کا نکاح منعقد ہونے کے لیے لڑکی کا مسلمان یا  اہلِ کتاب ہونا (بشرط یہ کہ وہ اپنے دین پر قائم ہو، اور مسلمان ہوکر مرتد نہ ہوئی ہو) ضروری ہے، اہلِ کتاب کے علاوہ کسی کافرہ عورت سے مسلمان کا نکاح منعقد  نہیں ہوسکتا، اور مسلمان عورت کا نکاح صرف مسلمان مرد ہی سے ہوسکتاہے، اور جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کامنکر ہو  ایسا شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہے اور اس کے ساتھ کسی مسلمان کا نکاح جائز نہیں،  اگر کسی نے کرلیا تو ایسا نکاح شرعاً منعقد ہی نہیں ہوگا۔ البتہ جو شخص عقائدِ منصوصہ کا منکر نہ ہو ، بدعات و رسومات کے بندھن سے جڑا ہو، اور باطل عقائد رکھتاہو، لیکن کلمہ گو ہو ، اور بنیادی عقائد جمہور اہلِ سنت والے ہوں  اس سے نکاح اگرچہ جائز ہے، تاہم مناسب نہیں۔

مذکورہ بالا اصولی تمہید کو مدنظر رکھ کر دیکھ لیا جائے کہ  اگر کوئی شیعہ قرآنِ مجید میں تحریف، حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے، یا جبرئیلِ امین سے وحی پہنچانے میں غلطی کا عقیدہ رکھتاہو، یا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا انکار کرتاہو یا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگاتاہو، یا اللہ تعالیٰ کے بارے میں ’’ بدا‘‘  کا عقیدہ رکھتاہو (یعنی -نعوذباللہ- کبھی اللہ تعالیٰ سے بھی فیصلے میں خطا ہوجاتی ہے) یا اس کو تسلیم کرتا ہو  یا اس کے علاوہ کوئی کفریہ عقیدہ رکھتا ہو تو ایسا شیعہ اسلام کے بنیادی عقائد کی مخالفت کی وجہ سے دائرہ اسلام سے خارج ہوگا، اور ایسے شیعہ کے ساتھ مسلمان کا نکاح جائز ہی نہیں ہوگا ۔ اور اگر  مذکورہ عقائد میں سے اس کا کوئی عقیدہ نہیں ہے، یا اس کے علاوہ کوئی اور کفریہ عقیدہ نہیں ہے یا وہ اپنے عقائد سے صدقِ دل سے توبہ کرے (اس سلسلے میں تقیہ نہ کرے) اور مذکورہ عقائد سے بھی براءت کرے اور ایسے عقیدے رکھنے والوں سے بھی براء ت کرے  تواس سے نکاح جائز ہوگا۔

قرآنِ مجید میں ہے: 

﴿لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ ﴾(الممتحنة: ١٠)

ترجمہ: " نہ وہ (مسلمان عورتیں) ان (کافر مردوں) کے لیے حلال ہیں، اور نہ ہی وہ (کافر) ان (مسلمان عورتوں) کے لیے حلال ہیں"۔

اور سورہ بقرہ میں ارشاد ہے: 

﴿وَلَا تَنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكَٰتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍۢ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُواْ ٱلْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُواْ ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍۢ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُوْلَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى ٱلنَّارِ ۖ وَٱللَّهُ يَدْعُوٓاْ إِلَى ٱلْجَنَّةِ وَٱلْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِۦ ۖ وَيُبَيِّنُ ءَايَٰتِهِۦ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴾(البقرة: ٢٢١) 

ترجمہ: "اور تم مشرک عورتوں سے نکاح مت کرو یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، اور مؤمنہ باندی زیادہ بہتر ہے مشرکہ عورت سے اگرچہ وہ (مشرکہ عورت) تمہیں پسند کیوں نہ ہو، اور تم (مسلمان عورتوں کا) نکاح نہ کراؤ مشرک مردوں سے یہاں تک کہ وہ ایمان لے آئیں، اور مؤمن غلام زیادہ بہتر ہے مشرک سے اگرچہ وہ (مشرک) تمہیں پسند کیوں نہ ہو، یہ (کفار) جہنم کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ جنت اور بخشش کی طرف بلاتے ہیں اپنے حکم سے، اور اللہ اپنے اَحکام لوگوں کے لیے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں؛ تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں"۔

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 270):

"ومنها: أن لاتكون المرأة مشركةً إذا كان الرجل مسلمًا، فلايجوز للمسلم أن ينكح المشركة؛ لقوله تعالى: {ولاتنكحوا المشركات حتى يؤمن} [البقرة: 221]، ويجوز أن ينكح الكتابية؛ لقوله عز وجل: {والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم} [المائدة: 5] .

والفرق أن الأصل أن لايجوز للمسلم أن ينكح الكافرة؛ لأن ازدواج الكافرة والمخالطة معها مع قيام العداوة الدينية لايحصل السكن والمودة الذي هو قوام مقاصد النكاح إلا أنه جوز نكاح الكتابية؛ لرجاء إسلامها؛ لأنها آمنت بكتب الأنبياء والرسل في الجملة، وإنما نقضت الجملة بالتفصيل بناء على أنها أخبرت عن الأمر على خلاف حقيقته، فالظاهر أنها متى نبهت على حقيقة الأمر تنبهت، وتأتي بالإيمان على التفصيل على حسب ما كانت أتت به على الجملة هذا هو الظاهر من حال التي بني أمرها على الدليل دون الهوى والطبع، والزوج يدعوها إلى الإسلام وينبهها على حقيقة الأمر فكان في نكاح المسلم إياها رجاء إسلامها فجوز نكاحها لهذه العاقبة الحميدة بخلاف المشركة، فإنها في اختيارها الشرك ما ثبت أمرها على الحجة بل على التقليد بوجود الإباء عن ذلك من غير أن ينتهي ذلك الخبر ممن يجب قبول قوله واتباعه - وهو الرسول - فالظاهر أنها لاتنظر في الحجة ولاتلتفت إليها عند الدعوة فيبقى ازدواج الكافر مع قيام العداوة الدينية المانعة عن السكن والازدواج والمودة خاليا عن العاقبة الحميدة فلم يجز إنكاحها ... وأما الآية فهي في غير الكتابيات من المشركات؛ لأن أهل الكتاب، وإن كانوا مشركين على الحقيقة لكن هذا الاسم في متعارف الناس يطلق على المشركين من غير أهل الكتاب قال الله تعالى: {ما يود الذين كفروا من أهل الكتاب ولا المشركين} [البقرة: 105] .

وقال تعالى: {إن الذين كفروا من أهل الكتاب والمشركين في نار جهنم} [البينة: 6] فصل بين الفريقين في الاسم على أن الكتابيات، وإن دخلن تحت عموم اسم المشركات بحكم ظاهر اللفظ لكنهن خصصن عن العموم بقوله تعالى: {والمحصنات من الذين أوتوا الكتاب من قبلكم} [المائدة: 5] ... ولايجوز للمسلم نكاح المجوسية؛ لأن المجوس ليسوا من أهل الكتاب قال الله تبارك وتعالى: {وهذا كتاب أنزلناه مبارك} [الأنعام: 92] إلى قوله: {أن تقولوا إنما أنزل الكتاب على طائفتين من قبلنا} [الأنعام: 156] معناه والله أعلم، أي: أنزلت عليكم لئلا تقولوا إنما أنزل الكتاب على طائفتين من قبلنا.

ولو كان المجوس من أهل الكتاب لكان أهل الكتاب ثلاث طوائف فيؤدي إلى الخلف في خبره عز وجل، وذلك محال على أن هذا لو كان حكاية عن قول المشركين لكان دليلا على ما قلنا؛ لأنه حكى عنهم القول ولم يعقبه بالإنكار عليهم والتكذيب إياهم، والحكيم إذا حكى عن منكر غيره، والأصل فيه ما روي عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أنه قال: «سنوا بالمجوس سنة أهل الكتاب غير أنكم ليسوا ناكحي نسائهم ولا آكلي ذبائحهم» ودل قوله " سنوا بالمجوس سنة أهل الكتاب " على أنهم ليسوا من أهل الكتاب ولا يحل وطؤها بملك اليمين أيضًا، والأصل أن لا يحل وطء كافرة بنكاح ولا بملك يمين إلا الكتابية خاصة؛ لقوله تعالى: {ولا تنكحوا المشركات حتى يؤمن} [البقرة: 221] واسم النكاح يقع على العقد والوطء جميعا فيحرمان جميعًا".فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201333

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں