بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کی پرانی قبر میں بیوی کی تدفین


سوال

شوہر کو  فوت ہوئے پندرہ سال ہوگئے  تھے ، کیا اس کی قبر میں بیوی کو دفن کیا جاسکتا ہے؟

جواب

مردہ کے بوسیدہ ہونے سے پہلے، بلاضرورت قبر کھودنا  اور اس میں کسی اور دفن کرنا درست نہیں ہے، ہاں اگر جگہ کی تنگی ہو یا جگہ ملنا دشوار ہو ، اور پہلی میت کی تدفین کو اتنا وقت گزرگیا ہو کہ اس کے بوسیدہ ہوجانے کا غالب گمان ہو، تو ایسی صورت میں اس قبر کو کھود کر اس میں دوسرا مردہ دفن کیا جاسکتا ہے، ایسی صورت میں اگر قبر کھودتے ہوئے پہلی میت کی کچھ ہڈیاں  نکل آئیں تو انہیں احترام سے ایک طرف اسی قبر میں رکھ دیا جائے اور اس میں مٹی کی آڑ بنادی جائے، لہذا اگر اس عذر کی بنا پر  بیوی کو شوہر کی قبر میں دفن کیا جائے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اگر یہ عذر نہ ہو، تو محض شوہر کی قبر ہونے کی وجہ سے یا رشتہ داری کی بنا پر ایساکرنے کی شرعاً اجازت نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 233):
"قال في الفتح: ولايحفر قبر لدفن آخر إلا إن بلي الأول فلم يبق له عظم إلا أن لايوجد فتضم عظام الأول ويجعل بينهما حاجز من تراب. ويكره الدفن في الفساقي اهـ وهي كبيت معقود بالبناء يسع جماعة قياماً لمخالفتها السنة، إمداد. والكراهة فيها من وجوه: عدم اللحد، ودفن الجماعة في قبر واحد بلا ضرورة، واختلاط الرجال بالنساء بلا حاجز، وتجصيصها، والبناء عليها، بحر. قال في الحلية: وخصوصاً إن كان فيها ميت لم يبل؛ وما يفعله جهلة الحفارين من نبش القبور التي لم تبل أربابها، وإدخال أجانب عليهم فهو من المنكر الظاهر، وليس من الضرورة المبيحة لجمع ميتين فأكثر ابتداء في قبر واحد قصد دفن الرجل مع قريبه أو ضيق المحل في تلك المقبرة مع وجود غيرها، وإن كانت مما يتبرك بالدفن فيها فضلاً عن كون ذلك ونحوه مبيحاً للنبش، وإدخال البعض على البعض قبل البلى مع ما فيه من هتك حرمة الميت الأول، وتفريق أجزائه، فالحذر من ذلك اهـ: وقال الزيلعي: ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره وزرعه والبناء عليه اهـ. قال في الإمداد: ويخالفه ما في التتارخانية: إذا صار الميت تراباً في القبر يكره دفن غيره في قبره؛ لأن الحرمة باقية، وإن جمعوا عظامه في ناحية ثم دفن غيره فيه تبركاً بالجيران الصالحين، ويوجد موضع فارغ يكره ذلك. اهـ.قلت: لكن في هذا مشقة عظيمة، فالأولى إناطة الجواز بالبلى إذ لايمكن أن يعد لكل ميت قبر لايدفن فيه غيره، وإن صار الأول تراباً لا سيما في الأمصار الكبيرة الجامعة، وإلا لزم أن تعم القبور السهل والوعر، على أن المنع من الحفر إلى أن يبقى عظم عسر جداً وإن أمكن ذلك لبعض الناس، لكن الكلام في جعله حكماً عاماً لكل أحد، فتأمل." 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200931

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں