بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر کا بیوی پر نماز کی سختی کرنا


سوال

کیا شادی کے بعد شوہر اپنی بیوی کو نماز کے قائم کرنے کے حوالے سے سختی کرنے کا مجاز ہے یا نہیں? اور اگر وہ کہے کہ یہ میرا اور میرے خدا کا معاملہ ہے آپ اندر مداخلت نہ کرو تو شوہر کو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

اگر کسی شخص کی بیوی بے نمازی ہو تو اسے چاہیے کہ حکمت کے ساتھ (محبت اور نرمی سے تنہائی میں) نماز کی اہمیت اور نماز کے فضائل سنائے، حکمِ الٰہی کی عظمت اس کے سامنے بیان کرے،  تاکہ دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور حکمِ الٰہی کی عظمت پیدا ہونے کی وجہ سے نماز کا شوق پیدا ہوجائے،   اگر کچھ سختی کرنا  یا خفگی کا اظہار کرنا مفید معلوم ہو تو اس پر بھی عمل کرنا چاہیے، لیکن اگر وہ پھر بھی نماز پر نہ آئے تو طلاق دینا ضروری تو  نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص بیوی کے اس گناہ کی بنا پر  اسے طلاق دے دے تو بھی شرعاً حرج نہیں۔

البتہ اگر بے نمازی بیوی سے اولاد موجود ہے، یا اب تک مہر ادا نہیں کیا اور مہر کی ادائیگی کی گنجائش نہیں ہے تو اس کو طلاق دینابہتر نہیں ہے؛ اس لیے کہ طلاق فی نفسہ امر مبغوض بھی ہے۔

"لایجب علی الزوج تطلیق الفاجرة". (شامي،کتاب الحظر والإباحة، باب الإستبراء، زکریا۹/۶۱۱، کراچي۶/۴۲۷)
"إذا اعتادت الزوجة الفسق علیه الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر والضرب فیما یجوز فیه، فإن لم تنزجر لایجب التطلیق علیه؛ لأن الزوج قد أدی حقه، والإثم علیها، هذا مااقتضاه الشرع، وأما مقتضى غایة التقویٰ، فهو أن یطلقها؛ لکن جواز الطلاق إنما هو إذا قدر علی أداء المهر وإلا فلایطلقها". ( نفع المفتي والسائل ص:۱۱۸)

حاشية رد المحتار على الدر المختار (3/ 50):
"(قوله: تطليق الفاجرة) الفجور العصيان، كما في المغرب.
(قوله: ولا عليها) أي بأن تسيء عشرته أو تبذل له مالا ليخالعها.
(قوله: إلا إذا خافا) استثناء منقطع؛ لأنّ التفريق حينئذ مندوب بقرينة قوله: فلا بأس، لكن سيأتي من أول الطلاق، أنه يستحب لو مؤذية أو تاركة صلاة ويجب لو فات الإمساك بالمعروف، فالظاهر أنه استعمال لا بأس هنا للوجوب اقتداء بقوله تعالى: { فإن خفتم ألا يقيما حدود الله فلا جناح عليهما فيما افتدت به} [سورة البقرة الآية 229] فإن نفي البأس في معنى نفي الجناح، فافهم". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144103200493

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں