بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

شب قدر پانے کا طریقہ اور اس کے اعمال


سوال

کیا اعمال کریں کہ شب قدر نصیب ہو؟

 

جواب

شبِ قدر  کی تعیین  اٹھالی گئی ہے کہ وہ متعین طور پر معلوم نہیں ہے کب ہو! البتہ  رمضان المبارک اور پھر خاص کر آخری عشرہ اور پھر اس میں بھی طاق راتوں میں اس کے ملنے کا زیادہ امکان ہے، ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے: '' تَحَرُّوْا لَــیْلَة الْقَدْرْ فِي الْوْتْرْ مِنَ الْعَشْرْ الْاَوَاخِرْ مِنْ رَمَضَانَ''۔  [مشکاۃ المصابیح عن البخاري] ’’حضور صلی اللہ علیہ و سلم  نے ارشاد فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخر عشرہ کی  طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ طاق راتوں سے مراد ، 21، 23، 25، 27، 29  کی راتیں ہیں، اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ رمضان المبارک کے پورے مہینے میں  راتوں کو عبادت کی کوشش کرے ، اگر پوری رات مشکل ہوتو کچھ وقت ، ورنہ عشاء کی نماز جماعت سے پڑھ کر تراویح پڑھے اور اس کے بعد دو ، چار رکعت پڑھ کر سوجائے، یا سحری میں بیدار ہوکر دو چارر کعات تہجد پڑھ لے اورصبح فجر کی نماز جماعت سے پڑھ لے تو اسے ان شاء اللہ شبِ قدر مل جائے گی۔
باقی  شب قدر کے  اعمال  تو اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا  نے  حضور صلی اللہ علیہ و سلم  سے پوچھا کہ یا رسول اللہ ! اگر مجھے شب قدر کا پتا چل جائے تو کیا دعا مانگوں؟ حضور صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا کہو : « اَللّٰهم إِنَّک عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّيْ » [ترمذی ، مشکاۃ] ’’اے اللہ! تو بے شک معاف کرنے والا ہے اور پسند کرتا ہے معاف کرنے کو‘ پس معاف فرما دے مجھے بھی‘‘[ترمذی‘ مشکاۃ]

یہ نہایت جامع دعا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے آخرت کے مطالبہ سے معاف فر ما دیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہیے.

شبِ قدر کی تعیین اٹھانے کی ایک حکمت علماء نے یہ لکھی ہے کہ مختلف راتوں میں زیادہ سے زیادہ اعمال کی ترغیب مقصود ہے، تاکہ امت مختلف طاق راتوں میں خوب عبادت کرے، ایسا نہ ہو کہ صرف ایک رات میں مخصوص وقت مخصوص عبادت کرلے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایاہے کہ آخری عشرہ داخل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اس کی راتیں جاگتے تھے اور اپنے گھروالوں کو بھی جگاتے تھے اور کمربند کس لیا کرتے تھے۔ نیز فرماتی ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جتنی محنت فرماتے تھے اتنی محنت او دنوں میں نہیں فرماتے تھے۔ لہٰذا امتی کو چاہیے وہ تمام طاق راتوں میں فرائض کی ادائیگی کے ساتھ  ، نفل نماز، تلاوت، درود شریف، دعاؤں اور دیگر اذکار کا خوب اہتمام کرے، اس رات کا کوئی خاص عمل نہیں ہے، بہتر یہ ہے کہ تھوڑے تھوڑے سبھی اعمال کیے جائیں اس طرح ہر قسم کے اعمال کا ثواب بھی حاصل ہوجائے گا  اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ اسے شبِ قدر بھی حاصل ہوجائے گی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200655

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں