بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شب جمعہ، شب برات وغیرہ میں اہلِ قبور کی روحوں کے گھروں میں آنے کی حقیقت


سوال

کیا شبِ جمعہ، شبِ برات یا دوسری کسی شب کو اہلِ قبور کی ارواح کا گھروں میں آنا اور صدقہ کی ترغیب دینا ثابت ہے؟  مہربانی کرکے تفصیل سے آگاہ فرمائیں!

جواب

کتب فتاوی میں اس کے بارے میں درج ذیل تفصیل ملتی ہے:

آپ کے مسائل اور ان کا حل میں ہے:

کیا روحوں کا دنیا میں آنا ثابت ہے؟
س… کیا روحیں دنیا میں آتی ہیں یا عالمِ برزخ میں ہی قیام کرتی ہیں؟ اکثر ایسی شہادتیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ روحیں اپنے اعزہ کے پاس آتی ہیں، شبِ برأت میں بھی روحوں کی آمد کے بارے میں سنا ہے۔ آپ اس مسئلے کی ضرور وضاحت کیجیے، مرنے کے بعد سوم، دسواں اور چہلم کی شرعی حیثیت کی وضاحت بھی بذریعہ اخبار کردیجیے؛ تاکہ عوام الناس کا بھلا ہو۔

ج… دنیا میں روحوں کے آنے کے بارے میں قطعی طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں اور نہ اس سلسلہ میں کوئی صحیح حدیث ہی وارد ہے۔ سوئم، دسواں اور چہلم خودساختہ رسمیں ہیں، ان کی مکمل تفصیل آپ کو میری کتاب “اختلافِ امت اور صراطِ مستقیم” میں ملے گی۔

امداد الفتاویٰ جدید میں ہے:

’’روحوں کا شب جمعہ میں گھر آنے کی بات کہاں تک صحیح ہے؟
سوال(۷۵۳):قدیم۱/۷۶۸-فتاویٰ رشیدیہ حصہ دویم ص:۹۸پرایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں کہ مردوں کی روحیں شب جمعہ میں گھر نہیں آتیں یہ روایت غلط ہے اور اس کے خلاف نورالصدور ص۱۶۸پر بروایت ابوہریرہؓ بایں فرماتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ شبِ جمعہ کو مؤمنوں کی روحیں اپنے اپنے مکانوں کے مقابل کھڑی ہو کر پکارتی ہیں کہ ہم کو کچھ دو اور ہر روح ہزار مردوں اورعورتوں کو پکارتی ہے، روایت کیا اس حدیث کو شیخ ابن الحسن بن علی نے اپنی کتاب میں۔ اب عرض یہ ہے کہ صحیح معاملہ شرعاً  کیا ہے؟
الجواب : اول تو اس کی سند قابلِ تحقیق ہے۔ دوسرے برتقدیرِ ثبوت مقید ہے اذن کے ساتھ اورحکم نفی دعویٰ عموم کے تقدیرپر ہے پس دونوں میں تعارض نہیں‘‘ ۔(۱)
۲۶/جمادی الاولیٰ۱۳۵۳؁ھ(النور ص:۹ماہ جمادی الثانی۱۳۵۴؁ھ)

امداد الفتاویٰ جدیدکے حاشیہ میں ہے:

’’ یہ مسئلہ بہت زیادہ قابل توجہ ہے، حضرت مفتی محمد شفیع صاحب دیوبندیؒ نے امداد المفتیین ترتیب جدید مکتبہ دار الاشاعت کراچی ص:۱۲۱تا۱۲۴؍ میں عمر وبکر کے معارضاتی سوال کے جواب میں کافی لمبا جواب تحریر فرمایا ہے، وہ تمام روایات بھی اس میں ہیں جن میں اس بات کو ثابت کیا جاتا ہے کہ مردوں کی روحیں شبِ جمعہ، یومِ عاشوراء، یومِ عید وغیرہ میں اپنے گھر آکر سوالات کرتی ہیں ۔
اور فتاوی دارالعلوم جدید ۵؍۴۵۹؍ میں اس کی تردید ہے اور حضرت مولانا عبد الحیؒ کی بات کی تائید ہے، فتاوی محمودیہ جدید ڈابھیل۱؍۶۰۶، میرٹھ۳؍۳۵۶؍ میں سائل نے سوال کیا کہ امداد المفتیین میں بکر نے جو حدیثیں اس کے ثبوت میں پیش کی ہیں وہ صحیح ہیں یانہیں؟ تو حضرت الاستاد مفتی محمود حسن گنگوہی علیہ الرحمہ نے جواب دیا: وہ روایات اس پایہ کی نہیں کہ اس سے کسی ضروری مسئلہ کا اثبات کیاجا سکے، آگے حضرت اپنی طرف سے جواب میں یہ الفاظ لکھتے ہیں  : میت کے انتقال کے بعد اپنے گھروالوں اور متعلقین سے کچھ امیدیں وابستہ ہوتی ہیں اور وہ متعلقین سے امیدوار رہتی ہیں،  ہوتا یہ ہے کہ وہ امید اور تعلق ہی لوگوں کوتمثل ہو کر ظاہر ہوجاتے ہیں، مثلاً یہ کہ روح دروازہ پر کھڑی ہے کھانا مانگتی ہے اور ضروریات طلب کرتی ہے، یہ حقیقت نہیں ہوتی؛ بلکہ تمثل ہوتا ہے؛ کیوں کہ ارواح کو اس عالم میں دنیاوی ضرورت کی نہ تو حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی یہ چیزیں ان کے لیے وہاں مفید ہوسکتی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ایصالِ ثواب کے طور پر جو چیزیں میت کی روح کو بخشی جاتی ہیں وہ بھی اس کو اصلی صورت میں نہیں ؛ بلکہ اخروی نعمتوں کی صورت میں متشکل ہوکر پیش ہوتی ہے ‘‘۔ (مستفاد: فتاوی محمودیہ ڈابھیل۱؍۶۰۷، میرٹھ۳؍۳۵۷)
حضرت  تھانویؒ  اشرف الجواب میں تحریر فرماتے ہیں :
’’ اگر تنعم میں مردہ ہے تو اسے یہاں آکر لیتے پھرنے کی ضرورت کیاہے؟ اور اگر معذب ہے تو فرشتگانِ عذاب کیوں کر چھوڑ سکتے ہیں کہ وہ دوسروں کو لپٹا پھرے، اشرف الجواب مکتبۃ دار الکتاب دیوبند ۲؍۱۵۶، ‘‘.

’’جواب:۳۰؍ اس سے معلوم ہوا کہ حضرتؒ اس کی تردید فرماتے ہیں ، فتاوی رشیدیہ میں حضرت گنگوہیؒ نے تین جواب لکھے ہیں، تینوں میں صاف الفاظ میں لکھا ہے کہ مردوں کی روحوں کے گھر پر آنے کی روایتیں واہیہ ہیں، اس پر عقیدہ ہرگز نہیں کرنا چاہیے۔  قدیم زکریا بکڈپو۲۴۸؍‘‘.

اس جواب پر حضرت مولانا سید احمد دہلویؒ مدرس دارالعلوم دیوبند، حضرت مولانا یعقوب صاحب نانوتویؒ اور مولانا احمد ہزارویؒ، مفتی عزیز الرحمن دیوبندیؒ، مولانا عبد ﷲ انصاریؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، مولانا ابو الکلامؒ، محمد اسحاق فرخ آبادیؒ وغیرہم کے دستخط  ثبت ہیں ۔
دوسرے جواب میں لکھتے ہیں کہ ’’شبِ جمعہ اپنے گٰھر نہیں آتیں، روایت غلط ہے‘‘.  فتاوی رشیدیہ دارالکتاب دیوبند ص:۲۴۹۔ 
شبیر احمد قاسمی عفا ﷲ عنہ‘‘.

فتاویٰ رشیدیہ میں ہے:

’’مؤمنین کی روحوں کا شبِ جمعہ اپنے گھرآنا
سوال:ارواح مؤمنین ہر جمعہ کی شب کو اپنے اہل و عیال میں آتی ہیں یہ صحیح ہے یا نہیں؟ اس طرح کا عقیدہ رکھنا درست ہے یا نہیں؟
جواب:ارواحِ مؤمنین کا شبِ جمعہ وغیرہ کو اپنے گھر آنا کہیں ثابت نہیں ہوا، یہ روایات واہیہ ہیں۔ اس پر عقیدہ کرنا ہرگز نہیں چاہیے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ کتبہ الراجی رحمۃ ربہ رشید احمد گنگوہی‘‘۔
الاجوبۃ صحیحۃ ابوالخیرات سید احمد عفی عنہ،مدرسن دوم مدر عالیہ دیو بند
الاجوبۃ صحیحۃ محمد یعقوب النا نوتوی عفی عنہ،مدرسہ اول مدرسہ عالیہ دیو بند
الاجوبۃ صحیحۃ،احمد ہزاروی عفی عنہ
الاجوبۃ کلہا صحیحۃ، عزیز الرحمن الدیوبندی کان اللہ لہ (وتوکل علی العزیز الرحمن)
الاجوبۃ صحیحۃ۔ الاجوبۃ صحیحۃ محمد محمود عفی عنہ ۔ الٰہی عاقبت محمود گردان۔ الاجوبۃ کلہا صحیحۃ ابوالمکارم
عبداللہ انصاری عفی عنہ۔ مدرس مدر عالیہ دیو بند۔ محمد اسحاق فرخ آبادی عفی عنہ۔

وفیہ ایضا:

’’مردہ کی روح کا شبِ جمعہ گھر آنا
سوال:بعض علماء کہتے ہیں کہ مردہ کی روح اپنے مکان پر شبِ جمعہ کو آتی ہے اور طالبِ خیرات و ثواب ہوتی ہے اور نگاہوں سے پوشیدہ ہوتی ہے یہ امر صحیح ہے یا غلط؟
جواب:یہ روایات صحیح نہیں. فقط واللہ تعالیٰ اعلم‘‘۔
’’شبِ جمعہ مردوں کی روحوں کا اپنے مکانوں میں آنا
سوال:شبِ جمعہ مردوں کی روحیں اپنے گھر آتی ہیں یا نہیں، جیسا کہ بعض کتب میں لکھا ہے؟
جواب:مردوں کی روحیں شبِ جمعہ میں اپنے اپنے گھر نہیں آتیں، روایت غلط ہے‘‘۔

نظام الفتاویٰ میں ہے:

’’سوال:قرآن مجید کی متعدد آیات ومن ورائہم برزخ الیٰ یوم یبعثون اور انہم الیہا لایرجعون وغیرہ سے ثابت ہوتاہے کہ کسی فردِ بشر کی روح بھی عالمِ وجود سے انتقال کرلینے کے بعد لوٹ کر واپس نہیں آسکتی ہے، فتاویٰ بزازیہ کی عبارت (من قال ارواح المشائخ حاضرۃ ،  یکفر) سے یہی واضح ہوتاہے کہ روحیں ہرگز ہرگز نہیں آتی ہیں، اندر یں صورت معراج کی شب آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا بیت المقدس میں (مسجدِ اقصیٰ) عام پیغمبروں کی ارواح کی کرنے کی کیا کیفیت ہے جب کہ کوئی روح بمطابق عقیدہ اہل سنت والجماعت دنیا میں واپس نہیں آسکتی ہے ان روحوں کے آنے کا کیا مطلب ہے؟ جواب دیں۔
الجواب وباللہ التوفیق
جواب: شب معراج میں عالمِ مثال میں بھی امامتِ انبیاء کے مسئلہ کا محتمل ہے اور روح مع الجسد بھی باذنہ تعالیٰ محتمل ہے، علماء کے اقوال دونوں ہیں، روح المعانی وروح البیان۔ نیز ارواح کا لوٹ کر دنیا کی طرف آنا باختیارہ ممنوع ہے نہ کہ بحکمِ تعالیٰ۔  تیسرے روح جب اس عالمِ ناسوت سے منتقل ہوگئی اورجسدِ عنصری سے آزاد ہوگئی تو اب یہ عناصر باذنہ اس کے تصرف میں حاصل نہیں اور نہ ان کو ان عالمِ عنصری اوراس کے احکام پرقیاس من کل الوجوہ کرنا صحیح ہوگا، بلکہ اس کا ضابطہ اور قاعدہ یہ ہوگا کہ وہ حکمتِ علمِ خداوندی پر محمول ہوگا  جن جن صورتوں میں ثبوت ہوگا ان ان صورتوں میں تسلیم ہوگا جن جن صورتوں میں انکار ہوگا ممنوع کہیں گے، اور جن جن مواقع میں سکوت ہوگا ہم بھی سکوت کریں گے، اس تقریر سے تمام جزئیاتِ نصوصیہ منطبق ہوجائیں گے۔ بزازیہ کے جملے کا محمل اسی عالمِ عنصری کے بارے میں ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
کتبہ : الاحقر محمد نظام الدین غفرلہٗ‘‘
الجواب صحیح  : سید احمد علی سعیدمفتی
نائب مفتی ۲۴؍۲؍۱۳۸۷ھ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200722

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں