بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سونے سے پہلے قرآنی آیات پڑھتے ہوئے ستر چھپانا


سوال

میں سونے سے پہلے قرآنی آیات پڑھتا ہوں اور درود شریف،  کیا یہ پڑھتے ہوئے ستر ڈھانپنا ضروری ہے یا شارٹس میں بھی پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

مرد کا ستر ناف سے متصل نیچے سے شروع ہوکر گھٹنوں سمیت ہے، اسے عام حالات میں یا سونے کی حالت میں  کھلا رکھنا درست نہیں، کم از کم ایسے کپڑے پہننے چاہییں جس سے لازمی ستر ضرور ڈھنپا رہے، تاکہ نہ اپنی نگاہ پڑ پائے نہ کسی اور کی، اگر مذکورہ حصے میں سے کچھ حصہ کھلا ہو تو اس حالت میں تلاوت کی اجازت نہیں ہے، کم از کم واجب ستر ڈھانپ کر تلاوت کیجیے،  لیٹ کر تلاوت کرنا جائز ہے، تاہم لیٹے ہوئے تلاوت کرتے وقت بھی تلاوت کے آداب ملحوظ رکھنا چاہیے، لہٰذا بہتر ہے کہ لیٹے ہوئے بھی پورا لباس پہن کر یا کم از کم پاک بستر کے اندر جسم کو چھپاکر، ٹانگوں کو ملاکر اور سر باہر نکال کر آیات و اَوراد اور درود شریف پڑھا کیجیے۔ یا بیٹھ کر ادب سے یہ اَوراد پڑھ کر پھر لیٹ جایا کریں۔

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں ہے:

’’سوال:

صبح کے وقت پاک آرمی کے جوان جب اپنے یومیہ کام کا آغاز اجتماعی پریڈ سے کرتے ہیں تو ابتدا میں تلاوتِ قرآنِ کریم مع ترجمہ و تفسیر یونٹ کے خطیب کو کرنا ہوتاہے، فوجی جوان کبھی کبھار بجائے فل سائز پتلون کے صرف نیکر پہن کر حاضر ہوتے ہیں، جو گھٹنوں سے اوپر ہوتی ہے، اور ران کھلی ہوئی دکھائی دیتی ہے، کیا اس صورت میں یونٹ کے خطیب کا ان جوانوں کے سامنے تلاوتِ قرآن کرنا درست اور جائز ہے؟ یہ قرآن کی بے حرمتی تو نہیں کہلائے گی؟

جواب:

واضح رہے کہ مرد کا ستر ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے، اس کو ہر حال میں چھپانا ضروری ہے، ہاں اگر کوئی شرعی عذر ہو تو خلوت میں کھول سکتے ہیں، جیساکہ بخاری کی شرح ’’عمدۃ القاری‘‘ میں ہے:

’’وقالوا: الفخذ عورة، فَهُمْ جُمهور العلماء: التابعین و من بعدهم، منهم: أبوحنیفة، ومالك في أصح أقواله، والشافعي و أحمد في أصح روایتیه، و أبویوسف و محمد و زفر بن هذیل‘‘. (عمدة القاري، کتاب الصلاة، باب مایذکر في الفخذ، (4/81) ط: رشیدیة)

اور ’’فتاویٰ شامی‘‘  میں ہے:

’’(ستر عورته) وجوبه عام ولو في الخلوة.

أي إذا کان خارج الصلاة یجب الستر بحضرة الناس إجماعاً، وفي الخلوة علی الصحیح ... ثم إن الظاهر أن المراد بما یجب ستره في الخلوة خارج الصلاة هو مابین السرة والرکبة فقط‘‘. (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، (1/404) ط: سعید)

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اس مجلس میں بلند آواز سے قرآن پڑھنا درست نہیں ہے، اور جو لوگ نیکر پہن کر اس مجلس میں حاضر ہوتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ ستر کھلی ہوئی حالت میں اس مجلس میں حاضر نہ ہوں، بلکہ ستر ڈھانپ کر آئیں، کیوں کہ بلاعذرِ شرعی ستر دیکھنا دکھانا حرام ہے۔ فقط واللہ اعلم‘‘

جامعہ کے ایک اور سابقہ فتوے میں ہے:

’’سوال: 

نیکر پہن کر قرآن پڑھنا یا صف بستہ ہوکر اسی حالت میں قرآن کا سننا جائز ہے یا نہیں؟

جواب:

نیکر اگر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہو تو مردوں کے لیے پہننا جائز ہے، لیکن اگر گھٹنے تک نہ ہو تو ایسی نیکر پہننا ناجائز اور حرام ہے، کیوں کہ اس سے عریانی اور بے حیائی ظاہر ہوتی ہے، لہٰذا ایسی عریانی کی حالت میں بلند آواز سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرنا یا سننا قرآنِ مجید کے ادب و احترام کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے، اس سے پرہیز ضروری ہے۔

فتاویٰ عالم گیری میں ہے:

’’ومن حرمة القرآن أن لایقرأ في الأسواق وفي موضع اللغو. اهـ‘‘ (الفتاوی الهندیة، کتاب الکراهیة، الباب الرابع في التسبیح والصلاة وقراء ة القرآن ...، (5/316) ط: حقانیة پشاور)  فقط واللہ اعلم‘‘

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"وأما في الحمام إن لم یکن فیه أحد مکشوف العورة وکان الحمام طاهرًا، فلابأس بأن یرفع صوته بالقراءة، وإن لم یکن کذلك فإن قرأ في نفسه لایرفع صوته فلابأس به". (حاشیة الطحطاوي علی مراقي الفلاح، کتاب الطهارة، باب الحیض والنفاس و الاستحاضة، (1/205) ط: مکتبة غوثیة، کراچی)

البحر الرائق میں ہے:

"وکذا لایقرأ إذا کانت عورته مکشوفةً أو امرأته هناك تغتسل مکشوفةً أو في الحمام أحد مکشوف، فإن لم یکن فلابأس بأن یرفع صوته". (البحر الرائق، کتاب الطهارة، باب الحیض، فروع، (1/202) ط: سعید کراچی)

الفتاویٰ الہندیہ میں ہے:

"رجل أراد أن يقرأ القرآن فينبغي أن يكون على أحسن أحواله يلبس صالح ثيابه ويتعمم ويستقبل القبلة؛ لأن تعظيم القرآن والفقه واجب، كذا في فتاوى قاضي خان ... لا بأس بقراءة القرآن إذا وضع جنبه على الأرض ولكن ينبغي أن يضم رجليه عند القراءة، كذا في المحيط. لا بأس بالقراءة مضطجعاً إذا أخرج رأسه من اللحاف؛ لأنه يكون كاللبس وإلا فلا، كذا في القنية". (کتاب الکراهیة، الباب الرابع في الصلاة والتسبیح ورفع الصوت عند قراءة القرآن، ج: 5، ص: 316، ط: رشیدیة)

{الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ} (191)

{الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ} ذكر تعالى ثلاث هيئات لايخلو ابن آدم منها في غالب أمره، فكأنها تحصر زمانه. ومن هذا المعنى قول عائشة رضي الله عنها : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه. أخرجه مسلم . (الجامع لأحکام القرآن، للقرطبي)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201243

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں