بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دار الحرب میں بھی سود حرام ہے


سوال

یورپ میں کوئی ذاتی گھر نقد نہیں خرید سکتا اور قرض پہ سود لگتا ہے۔ اس حالت میں کیا کرنا چاہیے؟  جیسا کہ مسئلہ ہے کہ جس ملک میں رہو وہاں کے  قانون کی پاس داری کر نا لازم ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کو چاہیے  کہ حتی الامکان سودی معاملات سے بچنے کی کوشش کرے،  اگر اس کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ ذاتی گھر خرید سکے تو پھر وہ مکان کرائے پر لے کر اس میں رہائش اختیار کرے، اگر قرض کی صورت میں سود لگتا ہے تو سود سے مکمل اجتناب کرے، کیوں کہ سود کھانے والا شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کھلم کھلا جنگ کا اعلان کرتا ہے اور حدیثِ  مبارک  میں سود کھانے والے پر لعنت آئی ہے، الغرض یورپ میں بھی سودی معاملہ کی گنجائش نہیں ہے، یہ صورت جائز ہوگی کہ بینک خود مکان خرید کر قبضہ کرے اور پھر سائل کو قسطوں میں زیادہ قیمت پر فروخت کردے، لیکن سودی معاملہ نہ کرے۔ قرآن کریم میں ہے:

﴿يا أيها الذين اٰمنوا اتقوا الله وذرو ما بقي من الربا إن كنتم مؤمنين (278) فإن لم تفعلوا فأذنوا بحرب من الله ورسوله وإن تبتم فلكم رءُوس أموالكم لا تظلمون ولا تظلمون (279) ﴾ (سورة البقرة،  آیت نمبر: 278، 279)

حدیث شریف میں ہے:

حدثنا حجاج، أخبرنا عن شريك، عن سماك، عن عبدالرحمن بن عبدالله بن مسعود عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لعن الله اٰكل الربا، وموكله، وشاهديه، وكاته» (مسند أحمد مخرجا، مسند عبدالله بن مسعود، ج: 6، ص: 358، ط: مؤسسۃ الرسالۃ)

حدیث شریف میں ہے:

أخبرنا أبو عبدالله الحافظ، وأبوسعيد بن أبي عمرو قالا: ثنا أبوالعباس محمد بن يعقوب، ثنا إبراهيم بن منقذ، حدثني إدريس بن يحيٰي، عن عبدالله بن عياش، قال: حدثني يزيد بن أبي حبيب، عن أبي مرزوق التجيني، عن فضالة بن عبيد صاحب النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «كل قرض جر منفعة فهو وجه من وجوه الربا» موقوف. (السنن الکبریٰ للبیہقی، باب کل قرض جر منفعۃ فہو ربا، ج:۵، ص: ۵۷۳، ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان) فقط واللہ  اعلم


فتوی نمبر : 144012200837

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں