بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی قرض سے کاروبار اور نفع سے عمرہ ادا کرنے کا حکم


سوال

زید نے سود پر (قرض)رقم لے کر بزنس کیا، اس بزنس میں جو نفع کمایا اس پیسے سے عمرہ کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟

جواب

سود کا لین دین شرعاً ا س قدر قبیح اور ناپسندیدہ ہے کہ اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺکے ساتھ اعلان جنگ قرار دیاگیا ہے۔قرآنِ کریم میں ہے:

 {یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ أٰمَنُوْا اتَّقُوْا اللّٰهَ وَذَرُوْا مَابَقِیَ مِنَ الرِّبوٰ إِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ، فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَرَسُوْلِه}

ترجمہ:…’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایا ہے اس کو چھوڑدو، اگر تم ایمان والے ہو ، پھر اگر تم اس پر عمل نہیں کروگے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے‘‘۔(البقرۃ:۲۷۸،۲۷۹-بیان القرآن)

نیز سود کے ایک درہم کو رسول اللہﷺ نے 36مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت گناہ قرار دیا ہے۔حدیث شریف میں ہے:

 ’’عن عبد اللّٰه بن حنظلة غسیل الملائکة أن النبي صلی اللّٰه علیه وسلم قال: لَدرهمُ ربًا أشد عند اللّٰه تعالٰی من ست وثلثین زنیةً في الخطیئة‘‘.       (دار قطنی)

نیز سود کا انجام تباہی اور بربادی ہی ہے۔ سودی معاملے کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ اس گناہ کا اثر صرف براہِ راست سودی معاملہ کرنے والے دو اشخاص تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس سے متعلقہ افراد (جو کسی بھی طرح اس سودی معاملہ میں معاون بنتے ہیں، مثلاً: لکھنے والا، گواہ، وغیرہ) وہ سب اللہ کی لعنت اور اس کی رحمت سے دوری کے مستحق بن جاتے ہیں۔     خلاصہ یہ کہ سودی معاملہ دنیا اور آخرت کی تباہی اور بربادی، ذلت اور رسوائی کا سبب ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں، لہٰذا ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ سود بلکہ سود کے شبہ  سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھے۔

کاروبار کو چلانے کے لیے بینک سے سودی قرضہ لینا شرعاً ناجائز اور حرام ہے؛ لہذا فوراً اس معاملہ کو ترک کردینا چاہیے، اور اپنی استعداد کے مطابق کاروبار کو وسعت دینی چاہیے۔

 البتہ سود پر قرضہ حاصل کرکے اس رقم سے حلال کاروبار کیا گیا تو دیگر شرعی تقاضے پورے کرنے کی بنا پر یہ کاروبار  فی نفسہٖ مباح ہوگا اور اس میں حاصل ہونے والے نفع سے اداکیاجانے والا عمرہ جائز ہوگا، تاہم سود ادا کرنے کا گناہ ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200359

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں