بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سودی قرضہ لینا/ سود سے سودی قرضہ چکانا


سوال

 میں ایک یونیور سٹی میں نوکری کرتا ہوں، یونیور سٹی کے اندر ایک سرکاری بینک ہے جہاں سے سب کو تنخواہ ملتی ہے، اس بینک نے سرکاری حکم کے مطابق یونیور سیٹی کو دوسو کروڑ روپیہ دے دیا تاکہ اس سے وہاں کے نوکری کرنیوالوں کو مکان بنانے کے لیے دس پرسنٹ سود پر لون دے سکے، حال آں کہ اب ملک کے تمام بینک کے مقررہ سود بارہ پرسنٹ ہیں، اب میں نے تو وہ لون لےلیا، اور وہاں سے کچھ کام میں لگایا اور باقی سے سرکاری بونڈ خریدا، جس بونڈ سے جو سود آتا ہے اس سے لون کا جو سود ہے وہ مٹ جاتا ہے، اور جو اصل یعنی کہ جو روپیہ لیا تھا وہ میری تنخواہ سے کاٹ لیا جاتا ہے، اب سوال دو ہیں، ایک ہے کہ  سود سے سود کو مٹانا جا‎ئز ہے یا نہیں؟  دوسرا یہ کہ میں جو طریقہ اختیار کیا ہے  یہ کس قدر تک جا‎‎ئز ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ سودی قرضہ لینا جائز نہیں، نیز سرکاری بانڈز کی اصل رقم سے زائد  رقم بھی سود ہوتی ہے، اس لیے بانڈز خریدنا بھی جائز نہیں، سودی رقم اگر حاصل ہو گئی ہے تو  اصل مالک کو واپس کرنا شرعاً ضروری ہوتا ہے، اور اگر واپس کرنا ناممکن ہو تو ثواب کی نیت کے بغیر صدقہ کرنا ضروری ہوتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سودی قرضہ لینا آپ کے لیے شرعاً جائز نہیں تھا، نیز سرکاری بانڈزلینا بھی ناجائز تھا  اور جو طریقہ سودی قرضہ ادا کرنے کا اختیار کیا ہے وہ بھی درست نہیں ہے؛ لہذا جلد از جلد اس قرضہ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہیے اور اپنے اس عمل پر توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے۔باقی سود کوسود سے مٹانے کا فلسفہ اسلامی نہیں ہے۔برائی کو برائی سے نہیں، بلکہ اچھائی سے مٹایاجاتا ہے۔  حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی نقل کیا گیاہے:

'' ۔۔۔ إن الله لایمحو السيء بالسيء، ولکن یمحو السيء بالحسن، إن الخبیث لایمحو الخبیث۔رواہ أاحمد''۔ (مشکاۃ،ص:242)

یعنی اللہ تعالیٰ برائی کو برائی سے نہیں مٹاتے، بلکہ برائی کو اچھائی سے مٹاتے ہیں، بلاشبہ گندگی گندگی کو صاف نہیں کرتی۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143908200050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں