بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سنتِ موکدہ میں چار کے بجائے چھ رکعت پڑھ لیں / تیسری رکعت میں جہراً قرات


سوال

1- چاررکعت سنتِ مؤکدہ میں قعدہ اخیرہ کی بجاۓسہوًا پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہو جاۓ اور سجدہ کرلے اور ایک رکعت اور ملا لے تو کیا چار سنت اوردو نفل ادا ہو جاۓ گی؟ یا چھ کی چھ نفل ہو جاۓ گی؟ دونوں صورتوں میں سجدہ سہو کا حکم بھی بتائیں ؟

2-  اگر امام تیسری یا چوتھی رکعت میں سورۃ الفاتحہ اونچی پڑھنی شروع کر دے تو کیا سجدہ سہو واجب ہوتا ہے؟ اگر ہاں! تو سورۃ  الفاتحہ کی کتنی مقدار سے ؟

3- اگر سورۃ  الفاتحہ سے پہلےسورت  شروع کر دی جاۓ تو کتنی مقدار سورۃ  کے پڑھنے کو مقام کا بدلنا تصور کیا جاۓ گا ؟

جواب

1۔۔ اگر چوتھی رکعت پر قعدہ کیا تھا،اور اس کے بعد پانچویں رکعت کے لیے کھڑا ہوگیا اور سجدہ بھی کرلیا اور اس کے بعد ایک چھٹی رکعت بھی ملالی تو  چار رکعت سنت اور دو نفل ادا ہوجائیں گی، البتہ اخیر میں سجدہ سہو کرنا واجب ہوگا۔ 

 اور اگر چوتھی رکعت پر قعدہ نہیں کیا تھا اور اس کے بعد پانچویں اور چھٹی رکعت ملائیں تو  یہ سب چھ رکعت نفل ہوجائیں گی، سنتِ مؤکدہ دوبارہ ادا کرنی پڑے گی، اس صورت میں سجدہ سہو لازم نہیں آئے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 85):
"(ولو سها عن القعود الأخير) كله أو بعضه (عاد) ويكفي كون كلا الجلستين قدر التشهد (ما لم يقيدها بسجدة)؛ لأن ما دون الركعة محل الرفض وسجد للسهو لتأخير القعود (وإن قيدها) بسجدة عامداً أو ناسياً أو ساهياً أو مخطئاً (تحول فرضه نفلاً برفعه) الجبهة عند محمد، ... (وضم سادسةً) ولو في العصر والفجر (إن شاء) لاختصاص الكراهة والإتمام بالقصد (ولايسجد للسهو على الأصح)؛ لأن النقصان بالفساد لاينجبر".

وفي رد المحتار:

"(قوله: لأن النقصان) أي الحاصل بترك القعدة لاينجبر بسجود السهو.
فإن قلت: إنه وإن فسد فرضاً فقد صح نفلاً ومن ترك القعدة في النفل ساهياً وجب عليه سجود السهو؛ فلماذا لم يجب عليه السجود نظراً لهذا الوجه؟ قلت: إنه في حال ترك القعدة لم يكن نفلاً، إنما تحققت النفلية بتقييد الركعة بسجدة والضم؛ فالنفلية عارضة ط

(وإن قعد في الرابعة) مثلاً قدر التشهد (ثم قام عاد وسلم) ولو سلم قائماً صح؛ ثم الأصح أن القوم ينتظرونه، فإن عاد تبعوه (وإن سجد للخامسة سلموا)؛ لأنه تم فرضه، إذ لم يبق عليه إلا السلام (وضم إليها سادسةً) لو في العصر، وخامسة في المغرب: ورابعة في الفجر، به يفتى (لتصير الركعتان له نفلا) والضم هنا آكد، ولا عهدة لو قطع، ولا بأس بإتمامه في وقت كراهة على المعتمد (وسجد للسهو) في الصورتين؛ لنقصان فرضه بتأخير السلام في الأولى وتركه في الثانية".

2۔۔ تیسری یا چوتھی  رکعت میں امام  نے اگر اتنی مقدار  سورۂ فاتحہ جہراً قراءت کرلی جس قدر قراءت سے نماز ہوجاتی ہے (یعنی کم از کم تیس حروف) تو سجدہ سہو کرنا لازم ہوگا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 81):
"(والجهر فيما يخافت فيه) للإمام (وعكسه) لكل مصل في الأصح، والأصح تقديره (بقدر ما تجوز به الصلاة في الفصلين".

3۔۔ اگر نماز کے شروع میں سورۂ فاتحہ سے پہلے کوئی اور سورت  کی اتنی مقدار پڑھ لی جتنی قرآت سے فرض ادا ہوجاتا ہے توسجدہ سہو لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 459):
"(وتقديم الفاتحة) على كل (السورة) وكذا ترك تكريرها قبل سورة الأوليين.

(قوله: على كل السورة) حتى قالوا: لو قرأ حرفاً من السورة ساهياً ثم تذكر، يقرأ الفاتحة ثم السورة، ويلزمه سجود السهو، بحر، وهل المراد بالحرف حقيقته أو الكلمة؟ يراجع ثم رأيت في سهو البحر قال بعد ما مر: وقيده في فتح القدير بأن يكون مقدار ما يتأدى به ركن. اهـ.
أي لأن الظاهر أن العلة هي تأخير الابتداء بالفاتحة والتأخير اليسير، وهو ما دون ركن معفو عنه، تأمل. ثم رأيت صاحب الحلية أيد ما بحثه شيخه في الفتح من القيد المذكور بما ذكروه من الزيادة على التشهد في القعدة الأولى الموجبة للسهو بسبب تأخير القيام عن محله، وأن غير واحد من المشايخ قدرها بمقدار أداء ركن". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200064

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں