بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سلام سے پہلے امام کو سجدہ سہو کا لقمہ دینے کا حکم


سوال

اگر امام لاعلم ہو یا جاہل ہو اور نماز میں کوئی ایسی غلطی یا نقص واقع ہوجائے جس کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوجاتا ہے، لیکن امام علم نہ ہونے کی وجہ سے آخری قعدہ میں سجدہ سہو نہ کرے تو کیا مقتدی  امام کو سلام سے پہلے لقمہ دے سکتا ہے یا نہیں؟ اگر سلام سے پہلے نہیں دے سکتا  تو کس وقت لقمہ دینا چاہیے؟

جواب

اگر امام پر سجدہ سہو لازم ہو  اور مقتدی کو قرائن (مثلاً  امام کے مسائل سے لاعلم ہونے یا آخری قعدہ میں تشہد کی  مقدار وقت گزرنے کے باوجود سجدہ سہو کے لیے سلام نہ پھیرنے) سے اس بات کا اندازا  ہوجائے کہ امام سجدہ سہو نہیں کرے گا تو مقتدی کے لیے سلام سے پہلے امام کو لقمہ دینا درست نہیں ہے، مقتدی کو  چاہیے کہ اگر امام ایک سلام پھیرنے کے بعد سجدہ سہو نہ کرے اور دوسرا سلام پھیر نے لگے تو اس وقت مقتدی امام کو لقمہ دے کر سجدہ سہو کی طرف متوجہ کرے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 621):

"واحترز بقصد الجواب عما لو سبح لمن استأذنه في الدخول على قصد إعلامه أنه في الصلاة كما يأتي، أو سبح لتنبيه إمامه فإنه وإن لزم تغييره بالنية عندهما إلا أنه خارج عن القياس بالحديث الصحيح: «إذا نابت أحدكم نائبة وهو في الصلاة فليسبح»"۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 622):

"(بخلاف فتحه على إمامه) فإنه لايفسد (مطلقاً) لفاتح وآخذ بكل حال"۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200919

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں