بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سفر میں سردی کی وجہ سے غسلِ جنابت سے بیماری کا اندیشہ ہونے کی صورت میں تیمم کا حکم


سوال

اگر انسان سفر میں ہو اور اس پر غسل فرض ہو جائے اور سردی کی وجہ سے غسل کرنے سے بیماری کا اندیشہ ہو تو ایسے میں کیا کرنا چاہیے؟ جب کہ فجر کی نماز کا وقت بھی قریب ہو؟

جواب

بصورتِ مسئولہ  سفر میں غسل فرض ہونے کی صورت میں اگر سردی کی وجہ سے غسل کرنے سے بیماری کا غالب گمان یا تجربہ ہو تو ایسی صورت میں غسل کرنے کے بجائے تیمم کرکے نماز پڑھ  لینی چاہیے اور بعد میں عذر زائل ہونے کے بعد غسل کرلینا چاہیے۔ واضح رہے کہ اگر پانی گرم کرنے یا گرم پانی ملنے یا غسل کرنے کے بعد کسی بھی ذریعہ سے گرمائش حاصل کرنے جیسے کسی انتظام پر قدرت ہونے کی وجہ سے غسل کے باوجود بیماری کا اندیشہ نہ ہو تو اس صورت میں  غسل کرنا ہی واجب ہوگا اور تیمم پر اکتفا کرنا جائز نہیں ہوگا۔ نیز واقعۃً سردی اتنی شدید ہو کہ پانی کا استعمال مضر ہو، یا مضر ہونے کا غالب گمان ہو۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 232):

"(من عجز) مبتدأ خبره تيمم (عن استعمال الماء) المطلق الكافي لطهارته لصلاة تفوت إلى خلف (لبعده) ولو مقيماً في المصر (ميلاً) أربعة آلاف ذراع،  (أو لمرض) يشتد أو يمتد بغلبة ظن أو قول حاذق مسلم ولو بتحرك ... (أو برد) يهلك الجنب أو يمرضه.

 (قوله: من عجز) العجز على نوعين: عجز من حيث الصورة والمعنى، وعجز من حيث المعنى فقط، فأشار إلى الأول بقوله لبعده، وإلى الثاني بقوله أو لمرض، أفاده في البحر.... (قوله: يهلك الجنب أو يمرضه) قيد بالجنب؛ لأن المحدث لايجوز له التيمم للبرد في الصحيح، خلافاً لبعض المشايخ، كما في الخانية والخلاصة وغيرهما. وفي المصفى أنه بالإجماع على الأصح، قال في الفتح وكأنه لعدم تحقيق ذلك في الوضوء عادة. اهـ. واستشكله الرملي بما صححه في الفتح وغيره في مسألة المسح على الخف من أنه لو خاف سقوط رجله من البرد بعد مضي مدته يجوز له التيمم. قال: وليس هذا إلا تيمم المحدث لخوفه على عضوه، فيتجه ما في الأسرار من اختيار قول بعض المشايخ.أقول: المختار في مسألة الخف هو المسح لا التيمم كما سيأتي في محله - إن شاء الله تعالى - نعم مفاد التعليل بعدم تحقيق الضرر في الوضوء عادة أنه لو تحقق جاز فيه أيضا اتفاقا، ولذا مشى عليه في الإمداد؛ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون (قوله: ولو في المصر) أي خلافاً لهما (قوله: ولا ما يدفئه) أي من ثوب يلبسه أو مكان يأويه. قال في البحر: فصار الأصل أنه متى قدر على الاغتسال بوجه من الوجوه لايباح له التيمم إجماعاً"فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200579

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں