بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سزا کے طور پر مالی جرمانہ عائدکرنا


سوال

لوگوں کے درمیان لڑائی جھگڑا ہوتا ہے تو ہماری برادری کے بڑے لوگ بیٹھ کر فیصلہ کرتے ہیں۔اگر  ایک آدمی کسی کو لوہے کا ہتھوڑا پیٹھ پر مارتا ہے جس سے زخم ہوتا ہے اس زخم پر کچھ ٹانکے لگتے ہیں تو اب برادری والے فیصلہ میں ان پر دو یا تین لاکھ روپے جرمانہ لگا سکتے ہیں ؟تاکہ وہ بھی آئندہ ایسی حرکت نہ کریں اور دوسروں کو بھی سبق مل جائے؟ ایسے ہی ایک آدمی نے دوسرے کی ران پر گولی ماری جو آر پار نکل گئی اس پر مالی جرمانہ لگانا جائز ہے کہ نہیں؟ اگر جائز ہے پھر تو ٹھیک ہے ایسا ہی کرتے ہیں۔ اگر جائز نہیں تو پھر اس طرح مالی جرمانہ کا فیصلہ کرنے والے پر گناہ ہے یا نہیں؟ اور ناجائز کی صورت میں جنہوں نے مالی جرمانہ لیا ہے وہ پیسہ حلال ہے یا حرام؟ ان کو واپس کرنا لازم ہے یا نہیں؟

جواب

مالی جرمانہ( جسے تعزیربالمال اور غرامۃ مالیہ کہاجاتاہے) جائزنہیں ہے،اس لیے اگربطور زجروتنبیہ مالی جرمانہ لیاجائے تواسے واپس کردیناچاہیے،مالی جرمانہ عائدکرنایاوصولی کی صورت میں اسے خرچ کرنا،استعمال میں لانادونوں صورتوں ناجائزہیں۔کسی شخص کے جرم کی بناپرمالی جرمانہ عائدکرکے جرائم سے روکناناممکن ہے ،شرعی اعتبارسے جرائم کی صورت میں بقدرجرم جوسزائیں عائدکی گئی ہیں ان سزاوں کے نفاذ سے ہی جرائم کاخاتمہ ہوسکتاہے,ان سزاؤں میں جہاں ہاتھ کے بدلے ہاتھ اورکان کے بدلے  کان یعنی قصاص کااصول ہے وہیں قصاص کے بدلے دیت لینے اور مصالحت کی بھی گنجائش ہے; اس لیے شرعی دیت  پر یا بطور صلح دونوں فریقین کی رضامندی سے دیت کے بجائے مال کی کسی مقدار پر فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔

واضح رہے کہ انسانی جان اور اس کے جسم کے مختلف حصوں کی دیت کی مقدار شرعاً متعین ہے، جسم کے کسی حصے پر جنایت کا مسئلہ درپیش ہو تو  علماء کرام سے رجوع کرکے متاثرہ عضو کی دیت کی مقدار معلوم کرلی جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143804200002

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں