بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ میں زمین سے پاؤں اٹھے ہوئے ہوں تو کیا حکم ہے؟


سوال

ایک شخص نماز پڑھتے ہوئے جب سجدہ میں جاتا ہے تو  اس کے دونوں پیر زمین سے اٹھ  جاتے  ہیں، اسی طرح جب سجدے سے اٹھتا ہے تو دونوں پیر زمین سے اٹھ جاتے ہیں تو کیا اس کی نماز ہوگی یا نہیں؟

جواب

سجدہ  کے دوران دونوں پیروں کو زمین پر رکھنا ضروری ہے، اگر پورے سجدے میں دونوں پاؤں کو  زمین سے بالکل اٹھائے رکھا  تو سجدہ ادا نہیں ہوگا، کم از کم ایک انگلی بھی سجدہ میں ایک رکن (سبحان اللہ کہنے) کی مقدار زمین سے لگ گئی تو فرض ادا ہوجائے گا، لیکن عذر کے بغیر ایک پاؤں  کو بھی اٹھائے رکھنا مکروہِ تحریمی ہے، البتہ عذر ہو تو مکروہ نہیں ہوگا۔

لہذا صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ شخص کے سجدہ کے دوران  اگر دونوں پاؤں زمین پر رہتے ہیں تو اس کا سجدہ ادا ہوجائے گا، اور اگر دونوں پاؤں سجدہ کے دوران بالکل بھی زمین پر نہیں رہتے تو سجدہ ادا نہیں ہوگا اور نماز بھی نہیں ہوگی،  اگر سجدہ کے دوران پاؤں زمین پر رہتے ہیں درمیان میں یا سجدہ کے شروع اور آخر میں زمین سے اٹھ جاتے ہیں تو اگر یہ عذر کی وجہ سے ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے اور اگر عذر نہ ہو کراہت ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 447):
"(ومنها: السجود) بجبهته وقدميه، ووضع إصبع واحدة منهما شرط. 

(قوله: وقدميه) يجب إسقاطه؛ لأن وضع إصبع واحدة منهما يكفي كما ذكره بعد ح. وأفاد أنه لو لم يضع شيئاً من القدمين لم يصح السجود وهو مقتضى ما قدمناه آنفاً عن البحر، وفيه خلاف سنذكره في الفصل الآتي". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 499):
"وفيه يفترض وضع أصابع القدم ولو واحدةً نحو القبلة وإلا لم تجز، والناس عنه غافلون.

ويؤيده ما في شرح المجمع لمصنفه حيث استدل على أن وضع اليدين والركبتين سنة بأن ماهية السجدة حاصلة بوضع الوجه والقدمين على الأرض ... إلخ وكذا ما في الكفاية عن الزاهدي من أن ظاهر الرواية ما ذكر في مختصر الكرخي، وبه جزم في السراج فقال: لو رفعهما في حال سجوده لايجزيه، ولو رفع إحداهما جاز. وقال في الفيض: وبه يفتى.
هذا، وقال في الحلية: والأوجه على منوال ما سبق هو الوجوب لما سبق من الحديث اهـ أي على منوال ما حققه شيخه من الاستدلال على وجوب وضع اليدين والركبتين، وتقدم أنه أعدل الأقوال فكذا هنا، فيكون وضع القدمين كذلك واختاره أيضاً في البحر والشرنبلالية". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201786

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں