بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سجدہ تلاوت کرنے کا طریقہ


سوال

جب تلاوت کرتے وقت آیتِ سجدہ آتی ہے تو وہ سجدہ ادا کرنے کا طریقہ کیا ہے?

جواب

نماز سے باہر تلاوت کرتے ہوئے آیتِ سجدہ تلاوت کی تو سجدہ  تلاوت  کا طریقہ یہ ہے کہ دل میں سجدہ تلاوت کی نیت کرے  کہ میں اللّٰہ تعالی کے واسطہ سجدہِ تلاوت کرتا ہوں اور کھڑا ہوکر ہاتھ اٹھائے بغیر   ’’الله أکبر‘‘    کہتا ہوا سجدہ میں جائے اور کم سے کم تین مرتبہ ’’سبحان ربي الأعلی‘‘  کہے پھر ’’الله أکبر‘‘  کہتا ہوا سجدے سے سر اٹھائے اور کھڑا ہوجائے، سجدہِ تلاوت میں تشہد اور سلام نہیں ہے.

 اگر بیٹھ کر ’’الله أکبر‘‘ کہتا ہوا سجدہ میں چلا جائے اور سجدہ کے بعد ’’الله أکبر‘‘ کہتا ہوا اٹھ کر بیٹھ جائے کھڑا نہ ہو  تب بھی درست ہے.  لیکن کھڑے ہو کر سجدہ میں جانا اور پھر کھڑا ہو جانا افضل ہے۔

اگر تین مکروہ اوقات (سورج کے طلوع، غروب اور استواء کے وقت) میں آیتِ سجدہ پڑھی ہو تو بہتر یہ ہے کہ اس وقت سجدہ تلاوت نہ کرے، البتہ اگر اسی وقت آیتِ سجدہ پڑھ کر اسی وقت فوراً سجدہ کرلیا تو کراہتِ تنزیہی کے ساتھ سجدہ ادا ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ اوقات میں سجدہ تلاوت بلاکراہت ادا کرنا جائزہے۔

 

اگر نماز میں آیتِ  تلاوت کے بعد  فی الفور سجدہِ تلاوت کرے تو نیت ضروری نہیں ہے۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 106):
"(بشروط الصلاة) المتقدمة (خلا التحريمة) ونية التعيين، ويفسدها ما يفسدها: وركنها: السجود أو بدله كركوع مصل وإيماء مريض وراكب (وهي سجدة بين تكبيرتين) مسنونتين جهرا وبين قيامين مستحبين (بلا رفع يد وتشهد وسلام وفيها تسبيح السجود) في الأصح.

(قوله: ونية التعيين) أي تعيين أنها سجدة آية كذا نهر عن القنية، وأما تعيين كونها عن التلاوة فشرط كما تقدم في بحث النية من شروط الصلاة إلا إذا كانت في الصلاة وسجدها فوراً كما علمته ... (قوله: بين تكبيرتين مسنونتين) أي تكبيرة الوضع وتكبيرة الرفع، بحر. وهذا ظاهر الرواية وصححه في البدائع، وعن أبي حنيفة لايكبر أصلاً. وعنه وعن أبي يوسف يكبر للرفع لا للوضع. وعنه بالعكس حلية  ... (قوله: جهراً) أي يرفع صوته بالتكبير، زيلعي. أي فيسمع نفسه به منفرداً ومن خلفه إذا كان معه غيره، ط. (قوله: بين قيامين مستحبين) أي قيام قبل السجود ليكون خروراً وهو السقوط من القيام، وقيام بعد رفع رأسه ... (قوله: في الأصح) قال في فتح القدير: ينبغي أن لايكون ما صحح على عمومه، فإن كانت السجدة في الصلاة فإن كانت فريضةً قال: سبحان ربي الأعلى أو نفلاً قال ما شاء مما ورد: «كسجد وجهي للذي خلقه وصوره وشق سمعه وبصره بحوله وقوته فتبارك الله أحسن الخالقين»، وقوله: «اللهم اكتب لي عندك بها أجراً و ضع عني بها وزراً واجعلها لي عندك ذخراً وتقبلها مني كما تقبلتها من عبدك داود»، وإن كان خارج الصلاة قال كل ما أثر من ذلك اهـ وأقره في الحلية والبحر والنهر وغيرها".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200742

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں