بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

سب سے پہلے تلبیہ کس نے پڑھا؟


سوال

سب سے پہلے تلبیہ کس نے پڑھا؟

جواب

روایات میں آتا ہے کہ جب حضرت  ابراہیم علیہ السلام  خانہٴ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا کہ لوگوں میں اعلان کردیں کہ وہ اس گھر کے حج کے لیے آئیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا: اے میرے رب! میری آواز سب لوگوں تک کیسے پہنچ سکتی ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا: آپ اعلان کریں، آواز  ہم پہنچائیں گے،  چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک پہاڑ پر کھڑے ہوئے اور آواز لگائی: لوگو! اللہ تعالی نے تمہارے اوپر اس مبارک گھر کا حج فرض کیا ہے؛ لہذا حج کو آؤ ۔ چناں چہ اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس آواز کو ہر روح تک پہنچادیا، پھر جس کے لیے حج مقدر تھا اس نے اس آواز پر لبیک کہا۔

اس روایت میں یہ تو ذکر کیا گیا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پکار پر ان تمام لوگوں نے لبیک کہا جن کا حج کرنا مقدر تھا، لیکن کیا یہ لبیک کے وہی الفاظ تھے جو ہمارے ہاں تلبیہ کے نام سے معروف ہیں، اس بات کا اس روایت میں کوئی ذکر نہیں ہے۔

 تلبیہ کے  یہ الفاظ  جو مسلمان حج یا عمرے کا احرام باندھتے وقت اور اس کے بعد پڑھتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے منقول ہیں،  آپ ﷺ نے امتِ مسلمہ کو تلبیہ کے لیے یہی کلمات تلقین فرمائے ہیں۔

روایات میں یہ  بھی آتا ہے کہ  مشرکینِ عرب بعثت سے پہلے بھی تلبیہ پڑھتے تھے،  البتہ اس میں الفاظ خود سے بڑھا دیے تھے، جیساکہ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما  کی روایت ہے کہ  مشرکین تلبیہ کہتے وقت "لبیك لاشریك لك إلا شریکًا هو لك تملکه وماملك"  کے الفاظ کہتے تھے،  چناں چہ جب مشرکین تک پہنچتے تو رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے: "ویلکم قدٍ قدٍ" یعنی تمہارا ناس ہو، اتنا ہی کافی ہے، آگے نہ کہو، بس کرو۔

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت اسماعیل علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کے بعد لوگ اسلام پر قائم تھے، پھر شیطان ان کو بہکاتا رہا اور شرک تک لے گیا حتی کہ انہوں نے تلبیہ میں  شرکیہ الفاظ زائد کر دیے۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ تلبیہ پہلے زمانے سے چلا آ رہا ہے،  مشرکین بھی تلبیہ پڑھا کرتے تھے، مگر زائد غلط اضافوں کے ساتھ، بہرحال! سب سے پہلے تلبیہ کس نے پڑھا، حتماً اسی وقت کہا جا سکتا ہے جب اس بارے کوئی صریح نص سامنے ہو، جو کافی تلاش کے بعد بھی ہمیں دست یاب نہیں ہوئی۔

 

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (9/ 172):
"حدثنا عبد الله بن يوسف قال أخبرنا مالك عن نافع عن عبد الله بن عمر رضي الله تعالى عنهما أن تلبية رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك".
مطابقته للترجمة ظاهرة لأنها في كيفية التلبية، وهذه التي رواها ابن عمر عن النبي، صلى الله عليه وسلم، هي كيفية التلبية، ولم يتعرض البخاري لحكم التلبية، وفيها أقوال على ما نذكره عن قريب، إن شاء الله تعالى.
والحديث أخرجه مسلم في الحج أيضا عن يحيى بن يحيى عن مالك. وأخرجه أبو داود فيه عن القعنبي عن مالك. وأخرجه النسائي فيه عن قتيبة عن مالك، والكلام فيه على وجوه.
الأول: في معناه قوله: (لبيك اللهم) ، يعني: يا الله أجبناك فيما دعوتنا. وقيل: إنها إجابة للخليل، عليه الصلاة والسلام، كما ذكرناه، وقد روى ابن أبي حاتم من طريق قابوس بن أبي ظبيان عن أبيه عن ابن عباس، قال: (لما فرغ إبراهيم، عليه السلام من بناء البيت، قيل له: {وأذن في الناس بالحج} (الحج: 72) . قال: رب وما يبلغ صوتي؟ قال: أذن وعلي البلاغ. قال: فنادى إبراهيم صلى الله عليه وسلم: يا أيها الناس كتب عليكم الحج إلى البيت العتيق، فسمعه من بين السماء والأرض، أفلا ترون الناس يجيئون من أقصى الأرض يلبون)؟"

فتح الباري لابن حجر (3/ 409):
قال جماعة من أهل العلم: معنى التلبية إجابة دعوة إبراهيم حين أذن في الناس بالحج انتهى وهذا أخرجه عبد بن حميد وبن جرير وبن أبي حاتم بأسانيدهم في تفاسيرهم عن بن عباس ومجاهد وعطاء وعكرمة وقتادة وغير واحد والأسانيد إليهم قوية وأقوى ما فيه عن بن عباس ما أخرجه أحمد بن منيع في مسنده وبن أبي حاتم من طريق قابوس بن أبي ظبيان عن أبيه عنه قال لما فرغ إبراهيم عليه السلام من بناء البيت قيل له: أذن في الناس بالحج! قال: رب وما يبلغ صوتي؟ قال: أذن وعلي البلاغ! قال: فنادى إبراهيم: يا أيها الناس كتب عليكم الحج إلى البيت العتيق، فسمعه من بين السماء والأرض، أفلا ترون أن الناس يجيئون من أقصى الأرض يلبون".

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (8/ 442):
"وأقوى ما فيه عن ابن عباس ما أخرجه أحمد بن منيع في مسنده، وابن أبي حاتم من طريق قابوس بن أبى ذبيان عن أبيه، عنه، قال: لما فرغ إبراهيم عليه السلام من بناء البيت قيل له:  أذن في الناس بالحج، قال: رب! وما يبلغ صوتي؟ قال: أذن وعليّ البلاغ. قال: فنادى إبراهيم: يا أيها الناس كتب عليكم الحج إلى البيت العتيق، فسمعه من بين السماء والأرض، أفلا ترون أن الناس يجيئون من أقصى الأرض يلبون. ومن طريق ابن جريج عن عطاء عن ابن عباس، وفيه: ((فأجابوه بالتلبية في أصلاب الرجال وأرحام النساء)) ، وأول من أجابه أهل اليمن".

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (8/ 478):
"وعن ابن عباس قال: كان المشركون يقولون: لبيك لا شريك لك، فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ويلكم قد قد)). إلا شريكاً هو لك تملكه وما ملك، يقولون هذا وهم يطوفون بالبيت. رواه مسلم".

وفى الباب عن أنس بن مالك، قال: كان الناس بعد إسماعيل على الإسلام فكان الشيطان يحدث الناس بالشيء يريد أن يردهم عن الإسلام حتى أدخل عليهم في التلبية: لبيك اللهم لبيك، لبيك لا شريك لك إلا شريكًا هو لك تملكه وما ملك. قال فما زال حتى أخرجهم عن الإسلام إلى الشرك، أخرجه البزار".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200881

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں