بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

سال گزرنے کے بعد قیمت بڑھا دینا


سوال

زید نے عمرو سے کہا: میں تمہیں یہ زمین 100 روپے میں دوں گا، پھر اس درمیان میں ایک سال گزر گیا تو زید نے عمرو سے کہا: اب 200 کا دوں گا، کیا یہ مسئلہ ٹھیک ہے؟

جواب

زید نے عمرو سے کہا کہ میں تمہیں یہ زمین 100 روپے میں دوں گا تو یہ الفاظ بیع (خرید و فروخت) کا وعدہ ہیں، صرف ان الفاظ سے بیع مکمل نہیں ہوتی، اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ اس موقع پر دونوں نے اس معاملہ کو مکمل کر لیا تھا یا نہیں، اگر باقاعدہ بھاؤ تاؤ کر کے معاملہ طے کر لیا تھا تو پھر  ایک سال بعد قیمت میں اضافہ کرنا جائز نہیں۔  لیکن اگر  زید نے سو روپے میں زمین دینے کی آفر کی تھی اور عمرو نے قبول نہیں کیا تھا  تو یہ معاملہ نامکمل رہا۔ پھر ایک سال گزرنے کے بعد زید یہ حق رکھتا ہے کہ وہ اپنی زمین دو سو روپے کی فروخت کرے۔

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 184):
"(ينعقد بالإيجاب والقبول) الانعقاد عبارة عن انضمام كلام أحد المتعاقدين إلى الآخر، والبيع عبارة عن أثر شرعي يظهر في المحل عند الإيجاب والقبول حتى يكون العاقد قادرًا على التصرف، وإليه أشار الشيخ بقوله: ينعقد، ولم يقل: البيع هذان اللفظان، والإيجاب هو الإثبات؛ لأنه ما كان ثابتًا للمشتري وقد ثبتت الآن بقوله: بعت، والقبول هو اللفظ الثاني الذي هو جواب للأول، فالإيجاب مثل قوله: بعت أو أعطيت أو هذا لك وما أشبه ذلك، والقبول مثل: اشتريت أو قبلت أو أخذت أو أجزت أو رضيت أو قبضت وما أشبه ذلك، ولا فرق بين أن يكون البادي البائع أو المشتري، كما إذا قال المشتري أولاً: اشتريت منك هذا العبد بمائة، فقال البائع: بعت أو هو لك، فإنه يتم البيع، وهذا معنى قوله: وإذا أوجب أحد المتعاقدين البيع فالآخر بالخيار، ولم يعين أنه البائع أو المشتري (قوله: إذا كانا بلفظ الماضي) أما إذا كانا بلفظ الأمر فلا بد من ثلاثة ألفاظ، كما إذا قال البائع: اشتر مني، فقال: اشتريت، فلاينعقد ما لم يقل البائع: بعت، أو يقول المشتري: بع مني، فيقول: بعت، فلا بد من أن يقول ثانيًا: اشتريت".

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر (2/ 4):
"(وينعقد) البيع أي يحصل شرعًا (بإيجاب) هو كلام أول من يتكلم من المتعاقدين حال إنشاء البيع، سمي بالإيجاب مبالغةً؛ لكونه موجبًا أي مثبتًا للآخر خيار القبول (وقبول) أي من إيجاب وقبول أو بسببهما  ... (بلفظ الماضي كبعت واشتريت)؛ لأنه إنشاء، والشرع قد اعتبر الإخبار إنشاء في جميع العقود، فينعقد به؛ ولأن الماضي إيجاب وقطع، والمستقبل عدة أو أمر وتوكيل، ولهذا انعقد بالماضي.
وفي القنية: ينعقد بلفظين مستقبلين، ثم قال: لاينعقد، وبين التوفيق بين قولين بـ :أنه إن أراد بالمضارع الحال ينعقد، وإن أراد به الاستقبال والوعد لا؛ لأن المضارع يحتمل الحال والاستقبال.
وفي التحفة: باللفظين الماضيين ينعقد بدون النية، وأما بصيغة المستقبل لا إلا بالنية". فقط و الله أعلم


فتوی نمبر : 144105200883

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں