بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کو شہوت کی نگاہ سے دیکھنا یا مصافحہ کرنا


سوال

ایک شخص کا رشتہ لگا ہوا ہے اور وہ اپنی ہونے والی ساس کو شہوت کی نگاہ سے دیکھتا ہے یا مصافحہ کرتا ہے تو کیا اس کی بیٹی سے نکاح کرنا صحیح ہوگا یا فاسد ہوگا؟ یا مذکورہ مسئلہ شادی کے بعد پیش آئے تو کیا نکاح فاسد ہوجائے گا یا صحیح رہے گا؟

جواب

مذکورہ شخص کا شادی سے پہلے یا بعد میں  اپنی ساس کو شہوت کی  نگاہ سے دیکھنے سے بیوی حرام نہیں ہوتی، اسی طرح اپنی ساس سے شادی سے پہلے یا شادی کے بعد مصافحہ کرنے کے بعد شہوت پیدا ہونے سے بیوی حرام نہیں ہوتی، البتہ اگر مصافحہ ہی شہوت کی نیت سے ہو اور دورانِ مصافحہ شہوت ہو تو پھر اس کی بیٹی سے نکاح کرنا جائز نہیں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (3 / 33):

"(قوله: والمنظور إلى فرجها) قيد بالفرج؛ لأن ظاهر الذخيرة وغيرها أنهم اتفقوا على أن النظر بشهوة إلى سائر أعضائها لا عبرة به ما عدا الفرج".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 33):

"والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهماو حدها فيهما تحرك آلته أو زيادته، به يفتى. وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته".

و في الرد:

"(قوله: والعبرة إلخ) قال في الفتح: وقوله: بشهوة في موضع الحال، فيفيد اشتراط الشهوة حال المس، فلو مس بغير شهوة، ثم اشتهى عن ذلك المس لاتحرم عليه. اهـ و كذلك في النظر، كما في البحر، فلو اشتهى بعدما غض بصره لاتحرم.

قلت: ويشترط وقوع الشهوة عليها لا على غيرها؛ لما في الفيض: لو نظر إلى فرج بنته بلا شهوة فتمنى جاريةً مثلها فوقعت له الشهوة على البنت تثبت الحرمة، وإن وقعت على من تمناها فلا ...(قوله: وحدها فيهما) أي حد الشهوة في المس والنظر ح (قوله: أو زيادته) أي زيادة التحرك إن كان موجوداً قبلهما (قوله: به يفتى) وقيل: حدها أن يشتهي بقلبه إن لم يكن مشتهياً أو يزداد إن كان مشتهياً، ولايشترط تحرك الآلة، وصححه في المحيط والتحفة. وفي غاية البيان: وعليه الاعتماد والمذهب الأول، بحر. قال في الفتح: وفرع عليه ما لو انتشر وطلب امرأة فأولج بين فخذي بنتها خطأؤ لاتحرم أمها ما لم يزدد الانتشار". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201661

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں