بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساس کا داماد کے گال پر بوسہ دینا


سوال

میری پھوپھی کی بیٹی کے ساتھ میرے رشتے کی بات چل رہی تھی، اس دوران میں پھوپھی سے ملنے چلا گیا، ہمارے ہاں رواج ہے کہ محرم کا گال پر بوسہ لیتے ہیں، تو پھوپھی نے بھی میرے گال پر بوسہ دیا اور ازروئے شفقت اپنا گال میرے گال سے لگالیا، جس کی وجہ سے میری  شرمگاہ میں تھوڑاساانتشار پیدا ہوگیا، اس کے بعد میں بیٹھ گیا،  حال آں کہ  پھوپھی کے بارے میں میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا اور نہ میلانِ قلب اور شہوت کا تصور کرسکتا ہوں، اس وقت یہ کیسے ہوا ؟مجھے خود معلوم نہیں۔ برائےکرم مسئلے کا حل بتا دیں کہ حرمتِ مصاہرت ثابت ہوئی ہے یا نہیں؟ اور یہ رشتہ نہ ہونے کی صورت میں قطع تعلق کا بھی خطرہ ہے اور بعض مشائخ کے قول پر عمل کرنا کیسا ہے جو کہ میلانِ  قلب کی شرط لگاتے ہیں؟

جواب

جب سائل کی ساس نے اسے گال پر بوسہ دیا اور از روئے شفقت اپنا گال سائل کے گال کے ساتھ لگا لیا اور اس وقت انتشار کی کیفیت نہیں تھی،لیکن اس کے بعد انتشار کی کیفیت ہوگئی تو اس سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوئی۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 33):

"والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهماو حدها فيهما تحرك آلته أو زيادته به يفتى وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته".

و في الرد:

"(قوله: والعبرة إلخ) قال في الفتح: وقوله: بشهوة في موضع الحال، فيفيد اشتراط الشهوة حال المس، فلو مس بغير شهوة، ثم اشتهى عن ذلك المس لاتحرم عليه. اهـ و كذلك في النظر كما في البحر، فلو اشتهى بعدما غض بصره لاتحرم.

قلت: ويشترط وقوع الشهوة عليها لا على غيرها لما في الفيض لو نظر إلى فرج بنته بلا شهوة فتمنى جارية مثلها فوقعت له الشهوة على البنت تثبت الحرمة، وإن وقعت على من تمناها فلا ...(قوله: وحدها فيهما) أي حد الشهوة في المس والنظر ح (قوله: أو زيادته) أي زيادة التحرك إن كان موجوداً قبلهما (قوله: به يفتى) وقيل: حدها أن يشتهي بقلبه إن لم يكن مشتهيا أو يزداد إن كان مشتهيا، ولا يشترط تحرك الآلة وصححه في المحيط والتحفة وفي غاية البيان وعليه الاعتماد والمذهب الأول بحر قال في الفتح: وفرع عليه ما لو انتشر وطلب امرأة فأولج بين فخذي بنتها خطأ لا تحرم أمها ما لم يزدد الانتشار". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200737

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں