بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ساری دولت زکاۃ میں دینے کی وصیت کرنے کا حکم


سوال

زید بوڑھا شخص ہے، جس کو بھولنے کی بیماری ہے (حتی کہ کھانا اور دوا کھانے کے بعد بھول جاتا ہے کہ اس نے کھانا یا دوا کھائی یا نہیں) ، اگر ایسا شخص اپنے بیٹے سے ناراض ہو کر وصیت کرجائے کہ میری ساری دولت زکاۃ میں ادا کر دینا (جب کہ زید اپنے مال کی زکاۃ باقاعدگی سے وقت پر ادا کرتا ہے اور لکھ کر رکھتا ہے)، اب زید کو وصیت لکھے سال سے زیادہ ہو چکا اور زید کو یاد ہی نہیں کہ اس نے ایسی کوئی وصیت کی ہے اور بیٹے سے ناراضگی بھی ختم ہو چکی ہے اور بیٹے کو کئی بار کہتا ہے کہ میری وراثت میں تمہیں اتنا اتنا حصہ ملے گا،  کیا ایسی وصیت پر عمل ہوگا؟

جواب

زید  اگر اپنی مذکورہ وصیت کہ  ’’میری ساری دولت زکاۃ میں ادا کردینا‘‘ سے رجوع نہ کرے تو اس کی یہ وصیت صرف اس کے کل مال کے ایک تہائی حصے میں معتبر ہوگی، یعنی اس کے کل مال میں سے اس کے تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالنے اور لوگوں کے واجب الادا  قرضوں کی ادائیگی کے بعد بقیہ مال کے ایک تہائی حصے میں سے یہ وصیت پوری کی جائے گی، باقی دو تہائی مال اس کے ورثاء ( بیٹے وغیرہ ) میں وراثت کے ضابطہ شرعی کے موافق تقسیم ہوگی۔ البتہ اگر زید اپنی زندگی میں اپنی اس وصیت سے رجوع کر لے یا انتقال کے وقت زید کے ذمہ زکاۃ کی ادائیگی باقی نہ ہو  تو وہ تہائی حصہ بھی زید کے ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 760)

"(ثم) تقدم (ديونه التي لها مطالب من جهة العباد)، ويقدم دين الصحة على دين المرض إن جهل سببه، وإلا فسيان كما بسطه السيد، (وأما دين الله تعالى، فإن أوصى به وجب تنفيذه من ثلث الباقي، وإلا لا.

 (قوله: وأما دين الله تعالى إلخ) محترز قوله: من جهة العباد، وذلك كالزكاة والكفارات ونحوها، قال الزيلعي: فإنها تسقط بالموت، فلا يلزم الورثة أداؤها إلا إذا أوصى بها؛ أو تبرعوا بها هم من عندهم؛ لأن الركن في العبادات نية المكلف وفعله، وقد فات بموته فلا يتصور بقاء الواجب اهـ وتمامه فيه، أقول: وظاهر التعليل أن الورثة لو تبرعوا بها لا يسقط الواجب عنه؛ لعدم النية منه؛ ولأن فعلهم لا يقوم مقام فعله بدون إذنه، تأمل. (قوله: من ثلث الباقي) أي الفاضل عن الحقوق المتقدمة، وعن دين العباد؛ فإنه يقدم لو اجتمع مع دين الله تعالى؛ لأنه تعالى هو الغني ونحن الفقراء، كما في الدر المنتقى". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202139

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں