بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

راوی حدیث زید بن عیاش کے بارے میں تفصیل


سوال

’’زید بن عیاش‘‘  راوی ضعیف ہیں یا ثقہ ؟محقق جواب عنایت فرمائیں!

  آپ نے اس سے پہلے جو جواب تحریر کیا ہے معاف کیجیے گا اس سے اور زیادہ کنفوژن کے شکار ہوگئےہیں، کچھ لوگ ثقہ قرار دے رہے ہیں جب کہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ  نے ان کو مجہول بتایا ہے تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ کس کی بات کا اعتبار کریں، آیا ہم ان کو ثقہ مانیں یا ضعیف ؟

ایک صاحب کا کہنا ہے کہ حضرت امام اعظم نے مجہول قرار دیا ہے؛ اس لیے ضعیف راوی ہیں، اورامام صاحب کی ہی جرح کا اعتبار ہو گا؛ اس لیے کہ ان کے زمانے میں ان کےبر خلاف کسی نے ان کو ثقہ نہیں قراد دیا ہے،  ان کے بعد کے ائمہ جرح وتعدیل کی توثیق کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔  نیز وہ صاحب اس بات کو ’’بذل المجہود‘‘  کے حوالے سے نقل کررہے ہیں۔  آپ ایسا اطمینان بخش جواب مرحمت فرمائیں کہ ہمارا کنفیوژن دور ہوجائے، اور یہ اصول بھی بتادیں کہ جب ایک ہی راوی کے بارےمیں توثیق اور تضعیف  ہو تو کس کو ترجیح حاصل ہوگی؟

جواب

راوی ’’زید بن عیاش‘‘  کے بارے میں اختلاف ہے کہ یہ ثقہ  راوی ہیں یا ضعیف راوی ہیں، اختلاف کی نوعیت یہ ہے کہ بعض حضرات صغار صحابہ میں شمار کرتے ہیں اور بعض صغار تابعین میں،  جن حضرات نے تابعین میں شمار کیا ہے ان کا آپس میں اختلاف ہے کہ یہ مجہول ہیں یا نہیں؟

جن حضرات کے نزدیک یہ صغارِ صحابہ میں سے ہیں، ان کے قول میں کسی قسم کے کلام کی ضرورت نہیں ہے؛ کیوں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب کے سب عادل ہیں؛ لہذا جرح وتعدیل کا کلام ان حضرات کی طرف متوجہ نہیں ہوگا، بلکہ کسی راوی کا صحابی ہونا ہی ان کی تعدیل کے لیے کافی ہے۔

رہی بات جن حضرات نے صحابی نہیں کہا اور ان کے بارے میں تابعی کا قول اختیار کیا ہے تو  ان حضرات کے اقوال بھی مختلف ہیں،  بعض نے مجہول کہا ہے، بعض نے ثقہ قرار دیا ہے،  لیکن صحیح بات یہ ہے کہ ’’زید ابو عیاش‘‘  صغارِ صحابہ میں سے ہیں،  اور ’’زید بن عیاش‘‘  تابعی ہیں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں، اور عبداللہ بن یزدی رحمہ اللہ ا ن کے شاگرد ہیں،  ابن حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے،  ترمذی، ابن خزیمہ،  ابن حبان نے ان کی احادیث کی تصحیح کی ہے،  دارقطنی نے بھی ثقہ قراردیا ہے۔ (تہذہب التہذیب، حرف الزا:۳/۳۶۵،ط: دارالفکر)

البتہ سائل نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے حوالے سے جو بات ذکر کی ہے کہ ’’حضرت امامِ اعظم نے مجہول قرار دیا ہے؛ اس لیے ضعیف راوی ہیں، اور امام صاحب کی ہی جرح کا اعتبار ہوگا‘‘، یہ بات درست نہیں؛  اس وجہ سے کہ امام صاحب  رحمہ اللہ نے جو مجہول قرار دیا ہے وہ محدثین کی اصطلاح کے مطابق نہیں کہا ہے، بلکہ امام صاحب کے ہاں ’’مجہول‘‘ اس شخص کو کہا جاتا ہے جو روایات میں مشہور نہ ہو ، جس راوی سےاگر ایک، دو،  بلکہ کئی روایات بھی مروی ہوں اور وہ مشہور نہ ہو ، اگرچہ ثقہ ہو ، تب بھی وہ امام صاحب کے ہاں ’’مجہول‘‘  ہوگا ۔

اور یہ بات بھی جاننا ضروری ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کے ہاں قرونِ ثلاثہ کے مجہول راوی کی روایت قابلِ قبول ہے۔  (قواعد فی علوم الحدیث :۲۰۷، ط: ادارۃ القرآن)

خلاصہ یہ ہے کہ ’’زید بن عیاش‘‘  کو حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے ’’تقریب‘‘  میں صدوق لکھا ہے،  دیگر ائمہ نے توثیق کی ہے،  جنہوں نے مجہول کہا ہے وہ اصطلاح کے مختلف ہونے کی وجہ سے کہا ہے، اس وجہ سے فقہاء کے قواعد سے محدثین کے قواعد پر کوئی زد نہیں پڑے گی۔

"حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن عبد الله بن يزيد، أن زيدًا (أبا عياش) هو زيد بن عياش الزرقي، ويقال: المخزومي، ويقال: من بني زهرة المدني، روى له الأربعة حديثًا واحدًا في النهي عن بيع التمر بالرطب، ذكره ابن حبان في "الثقات"، وصحح الترمذي وابن خزيمة وابن حبان حديثه المذكور، وقال فيه الدارقطني: ثقة، وقال ابن عبد البر: وأما زيد فقيل: إنه مجهول، وقد قيل: إنه أبو عياش الزرقي، وقال الطحاوي: قيل فيه: أبو عياش الزرقي، وهو محال؛ لأن أبا عياش الزرقي من جملة الصحابة لم يدركه ابن يزيد.
قلت: وقد فرق أبو أحمد الحاكم بين زيد أبي عياش الزرقي الصحابي وبين زيد أبي عياش الزرقي التابعي، وأما البخاري فلم يذكر التابعي جملة، بل قال: زيد أبو عياش هو زيد بن الصامت من صغار الصحابة، وقال الحاكم في "المستدرك": هذا حديث صحيح لإجماع أئمة أهل النقل على إمامة مالك، وأنه محكم في كل ما يرويه، وإذا لم يوجد في روايته إلَّا الصحيح خصوصًا في حديث أهل المدينة، إلَّا أن قال: والشيخان لم يخرجاه لما خشيا من جهالة زيد بن عياش، وقال أبو حنيفة: مجهول، وتعقبه الخطابي، وكذا قال ابن حزم: إنه مجهول، انتهى كلام الحافظ في "تهذيب التهذيب".
وقال الخطابي: وقد تكلم بعض الناس في إسناد حديث سعد بن أبي وقاص، وقال: زيد أبو عياش راويه ضعيف، ومثل هذا الحديث على أصل الشافعي لا يحتج به، قال الخطابي: وليس الأمر على ما توهمه، وأبو عياش هذا مولى لبني زهرة معروف، وقد ذكره مالك في "الموطأ"، وهو لا يروي عن رجل متروك الحديث بوجه، وهذا من شأن مالك، وعادته معلوم، انتهى.
قلت: وتعقب الخطابي متعقب بأن زيدًا أبا عياش قال فيه بعض المحدثين: إنه ثقة، وصحح بعضهم حديثه، وليس هذا الحكم إلَّا على تقليد مالك، وظنهم أن مالكًا - رضي الله عنه - لا يرويه إلَّا عن ثقة، وأنت تعلم أنه لا يكفي فيه التقليد، ولا يحكم به في ذلك الأمر، وأن مالكًا لم يلاقه ولم يره، وكذلك مثل البخاري لم يذكره.
وقول الخطابي: إنه معروف من بني زهرة ليس بصحيح، فإنه مختلف فيه أنه زرقي أو مخزومي أو من بني زهرة. فهذا يدل على أنه مجهول، لا سيما وقد تابع أبا حنيفة ابنُ حزم، فقال: إنه مجهول.
والأصل أنه وقع الاختلاف في جرح زيد بن عياش وتعديله بين أبي حنيفة ومالك - رحمهما الله-، فرواية مالك تقتضي تعديله ضمنًا وتبعًا، وثبت الجرح عن أبي حنيفة صراحة، فلا يقاوم تعديل مالك بجرح أبي حنيفة، خصوصًا لم يخالف الإِمام في زمانه أحد، فلا عبرة بمن بعدهما في ذلك، والله أعلم.(بذل المجهود ، باب فی التمر بالتمر :۱۱۔ ۵۴، ط: مرکز الشیخ )
وأما الحديث فمداره على زيد بن عياش، وهو ضعيف عند النقلة، فلا يقبل في معارضة الكتاب والسنَّة المشهورة، ولهذا لم يقبله أبو حنيفة في المعارضة بالحديث المشهور، مع أنه كان من صيارفة الحديث، وكان من مذهبه تقديم الخبر، وإن كان في حد الآحاد على القياس، بعد أن كان راويه عدلًا ظاهر العدالة، أو يأوِّله، فيحمله على بيع التمر بالرطب نسيئة، أو تمرًا من مال اليتيم توفيقًا بين الدلائل صيانةً لها عن التناقض، والله سبحانه وتعالى أعلم". (بذل المجهود ، باب التمر بالتمر :۱۱|۵۸،ط:مرکز الشیخ ابوالحسن علی الندوی ، هند) 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں