بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

تنخواہ دار شخص کا اپنی ضروریات (کرایہ، علاج، مکان کا قرض وغیرہ) پوری کرنے کے لیے زکاۃ لینا


سوال

اگر کسی نے قرض لے کر پلاٹ یا مکان خریدا ہو،  کیا اب قرض کی ادائیگی زکاۃ کی رقم سے کرسکتا ہے؟  کیا مکان کا کرایہ ادا کرنے کے لیے زکاۃ لی جاسکتی ہے؟  کیا کوئی ملازم اپنی یا اپنے بیوی بچوں کے علاج کے لیے زکاۃ لے سکتا ہے؟  کوئی تنخواہ دار آدمی اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے زکاۃ لے سکتا ہے؟

جواب

جس مسلمان کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر  رقم نہیں ہے، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت سے زائد  سامان ہے کہ جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید / ہاشمی ہے،  یا اس کے پاس نصاب کے بقدر مال تو ہے، لیکن اس کا قرض اس  کے مال سے زیادہ ہے یا اتنا قرضہ ہے کہ اگر وہ قرضہ ادا کردے تو صاحبِ نصاب نہ رہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اس کے بعد وہ اسے کسی بھی جائز مصرف میں خرچ کرسکتا ہے، خواہ قرضہ ادا کرے، مکان کا کرایہ دے ، بیوی بچوں کا علاج کرائے یا دیگر جائز ضروریات پوری کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لایجوز دفع الزکاة إلی من یملك نصاباً أي مال کان دنانیر أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغیر التجارة فاضلاً عن حاجته في جمیع السنة، هکذا في الزاهدي. والشرط أن یکون فاضلاً عن حاجته الأصلیة، وهي مسکنه، وأثاث مسکنه وثیابه وخادمه، ومرکبه وسلاحه، ولایشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزکاة لا الحرمان،کذافي الکافي.  (۱۸۹/۱فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200088

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں