بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زکات کن اموال پر واجب ہوگی؟ / سابقہ جائے نوکری کی جانب سے غلطی سے تنخواہ موصول ہوجائے تو کیا حکم ہے؟


سوال

درج ذیل اشیاء میں سے کن پر زکات لازم ہوگی:

1۔ میری بیگم کے نام پر ایک دوکان ہے جو کرایہ پر اٹھائی ہوئی ہے۔

2۔  ایک پلاٹ اور ایک مکان میرے نام پر ہے جو بند ہے۔

3۔ ایک گاڑی ہے۔

4۔ کچھ رقم انوسٹ کی ہوئی ہے۔

میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ ایک شہر میں نوکری کے سلسلہ میں میری پوسٹنگ تھی  وہیں میری بیوی بھی اس شہر کے ایک اسپتال میں نوکری کرتی تھی، پھر  ایک سال بعد میری پوسٹنگ دوسرے شہر ہوگئی،  ہم دوسرے شہر منتقل ہوگئے، میری بیوی نے اس اسپتال میں ایک سال کام کیا تھا ، پھر کاغذی کاروائی کراکر ہم منتقل ہوگئے، پانچ ماہ بعد اہلیہ کے اکاؤنٹ میں پرانے اسپتال سے تنخواہ موصول ہوئی ہے، اور اب تک تین تنخواہیں موصول ہوچکی ہیں، سوال یہ ہے کہ ان پیسوں کے استعمال کا کیا حکم ہے؟ کیا استعمال میں لا سکتے ہیں، یا واپس کرنے ہوں گے؟ جب کہ خطرہ اس بات کا ہے کہ واپس کیا تو اکاؤنٹ والے کھا جائیں گے۔

جواب

1۔ صورت مسئولہ میں سائل کی اہلیہ کے نام پر جو دوکان کرایہ پر چڑھی ہوئی ہے اس دوکان کی مالیت پر زکات واجب نہیں ہوگی، تاہم جو کرایہ موصول ہوتا ہے اگر وہ محفوظ رہتا ہو اور وہ نصاب کی مقدار(ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) تک پہنچ جائے یا آپ کی اہلیہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہوں تو اس محفوظ کرایہ کو ان کے کل مالِ نصاب میں شامل کرکے سالانہ کل کا ڈھائی فی صد بطورِ زکات ادا کرنا لازم ہوگا۔

آپ کے نام پر جو پلاٹ اور مکان ہے اگر وہ رہائش کی نیت سے خریدا تھا تو اس کی مالیت پر زکات لازم نہیں ہوگی، البتہ اگر فروخت کرنے کی نیت سے لیا تھا تو ہر سال کی مارکیٹ ویلیو لگا کر کل کا ڈھائی فی صد بطورِ زکات ادا کرنا آپ پر لازم ہوگا۔ 

آپ کے استعمال کی گاڑی پر زکات واجب نہیں۔

آپ کی انویسٹمنٹ  سے جو مالِ تجارت خریدا گیا ہو اس کی قیمتِ فروخت معلوم کرکے کل کا ڈھائی فی صد بطورِ زکات ادا کرنا آپ پر لازم ہوگا۔

2۔ آپ  کی اہلیہ کے اکاؤنٹ میں جو تنخواہ (ہسپتال انتظامیہ کی غلطی سے) موصول ہوئی ہے اس کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں، مذکورہ اسپتال کو واپس کرنا ضروری ہے، پس اگر اسپتال کے شعبہ اکاؤنٹ کی جانب سے ہتھیانے کا اندیشہ ہو تو قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مذکورہ رقم اسپتال میں جمع کرادی جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201167

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں