اگر کوئی کہے کہ یہ زکاۃ کی رقم مسکینوں میں تقسیم کردو، تو کیا آگے دینے والا وہ رقم اپنے اصول و فروع کو دے سکتا ہے؟ اور خود بھی لے سکتا ہے یا نہیں ؟
مذکورہ صورت میں جب اس شخص کو مالک نے کہا کہ یہ رقم مسکینوں میں تقسیم کردو تو رقم لینے والا شخص اس کا کا وکیل بن گیا ، اور اس صورت میں یہ شخص ہر مستحق شخص کو اس رقم میں سے دے سکتا ہے، لہذا اگر اس کے اپنے اصول وفروع مستحق ہوں تو انہیں بھی اس میں زکاۃ دے سکتا ہے۔ لیکن خود مستحق ہو تب بھی اس رقم میں سے اپنے لیے رکھنا جائز نہیں۔ البتہ اگر موکل نے اسے کلی صواب دیدی اختیار دے دیا ہو کہ تم جہاں چاہو خرچ کرسکتے ہو تو پھر مستحق ہونے کی صورت میں خود رکھ لینا بھی جائز ہے۔
"رجل دفع إلى رجل مالاً قال: أعط هذا من أحببت، ليس له أن يتصدق على نفسه عند أبي حنيفة، وقال محمد: له ذلك". (المحيط البرهاني : ٢/ ٣٢١) فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144012200931
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن