بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زوجہ مجنون کا حکم


سوال

میری شادی کو تین ماہ گزرے ہیں اور میری زندگی کافی حد تک خراب ہو گئی ہے ، کیا میرا رشتہ قائم رہے گا،اس  کی چاہ یہ ہے کہ خود منانے آئے، مار پیٹ کرتے ہیں، سسرال والے سارے شروع ہو جاتے ہیں، کیا  مجھے واپس جانا چاہیے؟  یا خلع لینی چاہیے؟ اس گھر میں میری عزت ختم ہو چکی ہے، ہم دونوں پر کوئی عمل تو نہیں کر رہا؟ اور اسلام کیا کہتا ہے اگر شوہر دماغی طور پر ٹھیک نہ ہو یا د س آدمیوں سے کنٹرول میں آتا ہو ، کیا عورت کو اب بھی اپنا رشتہ قائم رکھنا چاہیے؟ اسلام کیا کہتا ہے؟ معاشرہ میں کیا اس کی عزت نہیں ہوتی؟ کوئی نظرِ بد تو نہیں، مجھے استخارہ کرنا ہے کہ میرا یہ رشتہ چلے گا؟ میں کیا کروں؟ کیا پڑھوں یا رشتہ ختم کروں؟ 

اور دوسرا استخارہ یہ ہے کہ میرے بابا کےمیری شادی سے مالی حالات خراب ہو گئے ہیں، ان کی عزت خراب ہو گئی ہے، ان کا بھی بتا دیں کہ کوئی نظرِ بد تو نہیں؟ کیا کریں؟

جواب

آپ نے سوال میں لکھا ہے کہ "اگر شوہر دماغی طور پر ٹھیک نہ ہو یا د س آدمیوں سے کنٹرول میں آتا ہو ، کیا عورت کو اب بھی اپنا رشتہ قائم رکھنا چاہیے؟"  اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ شوہر مجنون ہے تو واضح رہے  پاگل پن کی دو صورتیں ہیں:

1۔ نکاح کے وقت یہ جنون تھا  اور بے خبری میں نکاح ہو جائے۔ 

2۔  نکاح کے وقت جنون نہ تھا۔

ان دونوں صورتوں میں عورت کو مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ تفریق کا حق حاصل ہو گا۔

1۔ عورت کی طرف سے رضامندی نہ پائی جائے، اگر نکاح سے پہلے جنون کا پتا تھا پھر بھی نکاح کر لیا تو اختیار نہ ہو گا اور اگر نکاح کے بعد جنون ہوا ہو تو یہ شرط ہے کہ جنون کی خبر ہونے کے بعد اس کے نکاح کے رہنے پر رضامندی ظاہر نہ کی ہو ، اگر عورت نے ایک مرتبہ بھی رضامندی ظاہر کر دی تو عورت کا اختیار ختم ہو جائے گا۔

2۔ جنون کا پتا چلنے کے بعد اپنے اختیار سے عورت نے جماع یا دواعی جماع کا موقع نہ دیا ہو۔

تفریق کی صورت اور طریقہ کار:

مجنون کی بیوی قاضی کی عدالت میں درخواست دے اور شوہر کا خطرناک مجنون ہونا ثابت کرے ، قاضی واقعہ کی تحقیق کرے، اگر واقعہ درست ثابت ہو تو مجنون کو علاج کے لیے ایک سال کی مہلت دےد ے ، سال گزرنے کے بعد بیوی پھر درخواست دے ، اگر شوہر کا جنون اب تک قائم ہو تو عورت کو اختیار دے دیا جائے، اس پر عورت اگر اسی مجلس میں نکاح کو ختم کرنے کا مطالبہ کرے  تو قاضی تفریق واقع کر دے۔

نوٹ: مجنون کی بیوی اپنے خاوند سے علیحدگی  اختیار کرنے میں خود مختار نہیں، بلکہ قاضی کا فیصلہ شرط ہے جو کہ  آج کل عدالت کی صورت میں موجود ہے۔

اور اگر آپ اپنے اس عمل کے لیے استخارہ چاہتی ہیں تو اس کے لیے خود استخارہ کر لینا چاہیے، استخارہ کا طریقہ یہ ہے کہ  دن رات میں کسی بھی وقت بشرطیکہ وہ نفل کی ادائیگی کا مکروہ وقت نہ ہو دو رکعت نفل استخارہ کی نیت سے پڑھیں،نیت یہ کریں کہ میرے سامنے یہ معاملہ یا مسئلہ ہے ، اس میں جو راستہ میرے حق میں بہتر ہو ، اللہ تعالی اس کا فیصلہ فرمادیں ۔ سلام پھیر کر نماز کے بعد استخارہ کی مسنون دعا مانگیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی ہے، استخارہ کی مسنون دعا  یہ ہے:

"اَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْتَخِیْرُکَ بِعِلْمِکَ ، وَ أَسْتَقْدِرُکَ بِقُدْرَتِکَ، وَ أَسْأَلُکَ مِنْ فَضْلِکَ الْعَظِیْمِ ، فَإِنَّکَ تَقْدِرُ وَ لاَ أَقْدِرُ، وَ تَعْلَمُ وَلاَ أَعْلَمُ ، وَ أَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوْبِ اَللّٰهُمَّ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ خَیْرٌ لِّيْ فِیْ دِیْنِيْ وَ مَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِه وَ اٰجِلِه ، فَاقْدِرْهُ لِيْ، وَ یَسِّرْهُ لِيْ، ثُمَّ بَارِکْ لِيْ فِیْهِ وَ إِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هٰذَا الْأَمْرَ شَرٌ لِّيْ فِيْ دِیْنِيْ وَمَعَاشِيْ وَ عَاقِبَةِ أَمْرِيْ وَ عَاجِلِه وَ اٰجِلِه ، فَاصْرِفْهُ عَنِّيْ وَاصْرِفْنِيْ عَنْهُ، وَاقْدِرْ لِيَ الْخَیْرَ حَیْثُ کَانَ ثُمَّ أَرْضِنِيْ بِه".(بخاری،ترمذی)

دعاکرتے وقت جب هذا الأمر پر پہنچیںتو هذا الأمرکہہ کر دل میں اپنے اس کام کے بارے میں سوچیں  اور دھیان دیں جس کے لیے استخارہ کیا جا رہا ہو۔

باقی  اگر کسی کو نظرِ بد  لگ جائے تو  وَإِنْ یَّکَادُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ بِأَبْصَارِهِمْ لَمَّا سَمِعُوا الذِّکْرَ وَیُقُوْلُوْنَ إِنَّه لَمَجْنُوْنٌ وَّمَا هُوَ إِلَّا ذِکْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ  اور آیۃ الکرسی اور آخری تین قل پڑھ کر دم کر لیا کریں ،  یہ مجرب عمل ہے۔

باقی اگر آپ کے والد کے مالی حالات بھی نظر بد کا شکار ہوئے ہوں تو وہاں بھی اس آیت کو کثرت سے پڑھنے کا کہہ دیں، ان شاء اللہ حفاظت ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں