بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زندگی میں مکان وقف کرنے کی وصیت کرنا اور پھر اس سے رجوع کرنا


سوال

 میرے حق مہر میں ایک مکان ہے جس میں,  میں ابھی رہائش پذیر ہوں، میری کوئی اولاد نہیں، آج سے دس پندرہ سال پہلے میں نے اور میرے شوہر نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ مکان کے ساتھ متصل ایک مسجد  ہے، ہمارے مرنے کے بعد یہ گھر اس مسجد کو وقف ہوگا؛ کیوں کہ شوہر فوت ہوچکے ہیں، میری کوئی اولاد نہیں ہے اور شوہر کے مرنے کے بعد میں نے اپنی بھانجی اس کے شوہر اور تین بچیوں کو اپنے پاس رہائش پذیر رکھ لیا ہے، جب کہ مسجد پر  بریلوی حضرات کا قبضہ ہے، مسجد میں ان کا زور ہے، میرے مرنے کے بعد اگر یہ گھر مسجد کو دے دیا تو یہ لوگ بے دینی پھیلانےکا ذریعہ بنائیں گے، جب کہ دس پندرہ سال پہلے شوہر کی موجودگی میں محلےمیں قابل اعتبار پرانے لوگ آباد تھے،  ان میں سے اکثر   وفات پا چکے ہیں، کچھ محلہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں، اور محلے میں قابلِ اعتبار لوگ نہیں ہیں جس کی وجہ سے قوی امکان ہے کہ یہ گھر بے دینی پھیلانے کا ذریعہ بنےگا تو کیا میں اپنی یہ وصیت تبدیل کر سکتی ہو ں، جب کہ مالکِ مکان میں خود ہوں۔  اور اب میرا ارادہ ہے کہ مکان بیچ کر اس 1/3 الگ کر کے بقایا رقم سے اپنی اس بھانجی کو گھر خرید کر دے دوں؛ چوں کہ بھانجی کا گزارا بمشکل چلتا ہے اور بھانجی کے حالات اس قابل نہیں کہ کرائے کے گھر میں رہ سکے۔  میرےسمیت 4 بہنیں اور ایک بھائی ہیں وہ تمام اس گھر میں اپنے حصہ سے دست بردار ہونے کو تیار ہیں۔

برائے مہربانی میری راہ نمائی فرمادیجیے کیا شرعی طور پر میں ایسا کرسکتی ہوں؟  شوہر اور میں نے یہ تحریر ایک اسٹام پیپر پر لکھی تھی کہ جب تک ہم یا کوئی ایک زندہ ہے تو یہ گھر میں ہم رہائش پذیر رہیں گے، لیکن جب ہم فوت ہوجائیں گے تو یہ گھر مسجد کو وقف ہو جائے گا، جب کہ مسجد والوں کو اس سلسلے میں ابھی تک کچھ نہیں بتایا گیا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ مکان جو آپ کو حق مہر میں دیا گیا تھا یہ آپ کی ملکیت ہے، آپ نے اپنی زندگی میں  جو زبانی اور تحریری طور پر یہ طے کیا تھا کہ” جب تک میں اور میرا شوہر یا ہم میں سے کوئی ایک زندہ ہے تو  اس گھر میں ہم رہائش پذیر رہیں گے،  لیکن جب ہم فوت ہوجائیں گے تو یہ گھر مسجد کو وقف ہو جائے گا“ تو  شرعاً موت کے بعد کسی چیز کےوقف کو معلق کرنا ”وصیت“ کے حکم میں ہوتا ہے، اور انتقال کے بعد ایک تہائی ترکہ میں سے اس وصیت کو پورا کرنا لازم ہوتا ہے، لیکن وصیت کرنے والا خود اپنی زندگی میں اپنی وصیت سے رجوع کرنا چاہے تو اس کو اس اختیار حاصل ہوتا ہے۔

لہذا چوں کہ مذکورہ مکان آپ کی ملکیت ہے اور آپ کا یہ جملہ وصیت کے حکم میں ہے اور آپ بعض وجوہات کی بنا پر اپنی وصیت سے رجوع کرنا چاہتی ہیں تو شرعاً آپ کو اس کا حق حاصل ہے، اس کے بعد اپنی ملکیت میں سے اپنی بھانجی کو مکان دلانا چاہتی ہیں اور دیگر ورثاء کو نقصان پہنچانا بھی مقصود نہیں ہے اور وہ خود بھی اس پر راضی ہیں تو شرعاً اس میں حرج نہیں ہے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق  (5/ 208):
"وفي التبيين: لو علق الوقف بموته ثم مات صح ولزم إذا خرج من الثلث؛ لأن الوصية بالمعدوم جائزة كالوصية بالمنافع، ويكون ملك الواقف باقيًا فيه حكمًا يتصدق منه دائمًا".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 658):
"(وله) أي للموصى (الرجوع عنها بقول صريح) أو فعل يقطع حق المالك عن الغصب (بأن يزيل اسمه) وأعظم منافعه كما عرف في الغصب (أو) فعل (يزيد في الموصى به ما يمنع تسليمه إلا به كلت السويق) الموصى به (بسمن والبناء) في الدار الموصى بها بخلاف تجصيصها وهدم بنائها لأنه تصرف في التابع (وتصرف) عطف على بقول صريح وعطف ابن كمال تبعًا للدرر بأو وعليه فهو أصل ثالث في كون فعله يفيد رجوعه عنها كما يفيده متن الدرر فتدبر (يزيل ملكه) فإنه  رجوع عاد لملكه ثانيًا أم لا (كالبيع والهبة).

(قوله: وله الرجوع عنها)؛ لأن تمامها بموت الموصي، ولأن القبول يتوقف على الموت والإيجاب المفرد يجوز إبطاله في المعاوضات كالبيع، ففي التبرع أولى، عناية".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200412

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں