والدین اپنی زندگی میں اگر اپنی جائیداد اپنی اولاد میں تقسیم کریں تو وراثت میں بیٹی اور بیٹے کا حصہ کیا ہو گا ؟
وا ضح رہے کہ ہر انسان اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک ہوتا ہے اور اپنی زندگی میں اپنی جائیداد میں جس طرح کا جائز تصرف کرنا چاہے کرسکتا ہے، اور زندگی میں اگر والدین اولاد کے درمیان جائیداد تقسیم کریں تو یہ میراث یا وراثت نہیں کہلاتی، بلکہ اس کی حیثیت ہدیہ (گفٹ) ہوتی ہے۔
صورتِ مسئولہ میں اگر والدین اپنی مشترکہ جائیداد اپنی زندگی میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ والدین اپنی جائیداد میں سے اپنے لیے جتنا چاہیں رکھ لیں؛ تاکہ بوقت ضرورت کام آئے، اس کے بعد اپنی بقیہ جائیداد اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان برابری کے ساتھ تقسیم کردیں یعنی جتنا بیٹوں کو دیں اتنا ہی بیٹیوں کو دیں، نہ کسی کو محروم کریں اور نہ ہی بلا وجہ کمی بیشی کریں۔ البتہ کسی بیٹے یا بیٹی کو کسی معقول وجہ کی بنیاد پر دوسروں کی بنسبت زیادہ دینا چاہیں تو ایسا بھی کرسکتے ہیں، یعنی کسی کو زیادہ شرافت و دین داری یا غریب ہونے کی بنا پر یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اوروں کی بنسبت زیادہ دے سکتے ہیں۔
اس کے بعد اگر والدین کا انتقال ہوجائے تو ان کے انتقال کے وقت جو اولاد زندہ ہوگی ان کے درمیان ان کی اس وقت موجود جائیداد شرعی حصص کے بقدر تقسیم کی جائے گی۔
فتاوی شامیمیں ہے:
"و في الخانیة: لا بأس بتفضیل بعض الأولاد في المحبة؛ لأنها عمل القلب وکذا في العطایا إن لم یقصد به الإضرار، و إن قصده فسوی بینهم یعطی البنت کالابن عند الثاني، و علیه الفتوی‘‘. (ج۔5 ص۔696 ط: سعید)فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144104200220
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن