بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

زنا سے حمل ٹھہرنے کے بعد زانی سے نکاح کرنے کی صورت میں پیدا ہونے والا بچہ ثابت النسب ہوگا یا ولد الزنا؟


سوال

شادی سے پہلے زنا کرنے سے حمل ٹھہر جانے کے بعد زانی سے نکاح کرنے سے وہ اولاد جائز ہوگی یا نہیں؟

جواب

نکاح سے پہلے منکوحہ اجنبی کے حکم میں ہوتی ہے، اس سے اختلاط نا جائز ہوتا ہے، اور اس سے ہم بستری کرنا ’’زنا‘‘  کہلاتا ہے، اگر کسی نے ایسا کر لیا تو سخت گناہ کا کام کیا، اس پر خوب توبہ و استغفار کرنی چاہیے۔ 

باقی زنا کرنے کی وجہ سے حمل ٹھہرنے کے بعد زانی سے نکاح کرنے کی صورت میں اگر نکاح کے چھ مہینے بعد اس حمل سے بچہ پیدا ہو تو وہ بچہ ثابت النسب ہوگا، لیکن اگر نکاح کے بعد چھ ماہ گزرنے سے پہلے ہی بچہ پیدا ہوگیا تو پھر اس بچہ کا اس زانی سے نسب ثابت نہیں ہوگا اور وہ بچہ ولد الزنا ہی کہلائے گا۔ البتہ اس صورت میں  اگر زانی اس بچے کے باپ ہونے کا اقرار کرلیتا ہے اور زنا کا ذکر نہیں کرتا تو بھی اس بچے کا نسب اس سے ثابت ہوجائے گا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 49):

"لو نكحها الزاني حل له وطؤها اتفاقاً، والولد له ولزمه النفقة.

 (قوله: والولد له) أي إن جاءت بعد النكاح لستة أشهر، مختارات النوازل، فلو لأقل من ستة أشهر من وقت النكاح لايثبت النسب، ولايرث منه إلا أن يقول: هذا الولد مني، ولايقول: من الزنى، خانية. والظاهر أن هذا من حيث القضاء، أما من حيث الديانة فلايجوز له أن يدعيه؛ لأن الشرع قطع نسبه منه، فلايحل له استلحاقه به، ولذا لو صرح بأنه من الزنى لايثبت قضاءً أيضاً، وإنما يثبت لو لم يصرح؛ لاحتمال كونه بعقد سابق أو بشبهة حملاً لحال المسلم على الصلاح، وكذا ثبوته مطلقاً إذا جاءت به لستة أشهر من النكاح؛ لاحتمال علوقه بعد العقد، وأن ما قبل العقد كان انتفاخاً لا حملاً، ويحتاط في إثبات النسب ما أمكن".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201873

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں