بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کا والد سے ہبہ میں عدم مساوات کی وجہ سے ازسرنوتقسیم کا مطالبہ


سوال

1- کیا فرماتے ہیں مفتیانِ  کرام اس مسئلے کے بارے میں جس میں زید کے 6 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں. اور اپنی زندگی میں ہی زید نے اپنی وراثت تقسیم کرنے کے لیے اپنے مکان کو فروخت کر دیا اور برابر برابر اپنی اولاد میں رقوم تقسیم کر دی ۔ بیٹیاں اپنے اپنے گھر رہتی ہیں. انہیں ان کا حق دے دیاگیا۔ اور تمام 6 لڑکوں کے لیے زید کی خواہش یہ تھی کہ تمام لڑکے ایک ہی جگہ زمین لے کر الگ الگ، مگر ایک جگہ رہیں۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا،  مگر جو زمین خریدی گئی وہ دو سمتوں والی زمین ملی. جس میں آگے کی سمت 3 لڑکوں کو اور پیچھے کی سمت 3 لڑکوں کو برابر برابر زمین تقسیم کی گئی۔ آگے کی سمت 3 لڑکوں کو جو جگہ دی گئی وہ سمت بڑی سڑک ہے اور شاہراہ عام ہے، اور وقت کے اعتبار سے اُس جگہ کی قیمت زیادہ ہے. مگر پیچھے کی سمت 3 لڑکوں کو جو جگہ دی گئی وہ نہایت ہی تنگ چھوٹی سی گلی اور شاہراہ عام بھی نہیں اور وقت کے اعتبار سے اس کی قیمت کم ہے۔ اب ایسی زمین پر مکان کی تعمیر ہوئی اور تعمیر میں بھی تمام دیواریں کالم اور بیم وغیر مشترک رکھی گئی جسے عرف عام میں پڑوسی دیوار کہا جاتا ہے۔ زید کا اصرار تھا کہ تمام لڑکے ایک ہی جگہ الگ الگ درج بالا تر تیب سے ر ہیں۔ اس ترتیب میں پیچھے سمت رہنے والے لڑکوں کو اکثر و بیشتر بہت ساری تکالیف کا سامنا بھی ہوتا ہے بہ نسبت آگے کی سمت والوں سے. اس ترتیب میں سب سے چھوٹے لڑکے کا کہنا ہے کہ درج بالا تقسیم کے وقت میں کافی چھوٹا تھا، بہت سمجھ بھی نہیں تھی مجھے، پیچھے کی تنگ گلی میں جگہ دی گئی. اب مجھے اس بات کا احساس ہورہا ہے کہ یہ تقسیم جیسے کہ غلط ہے.

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کیا یہ تقسیم وراثت کی درج بالا ترتیب صحیح ہے؟

2-  درج بالا مسئلے میں چوں کہ زید کے اصرار پر ایک جگہ لے کر 6 لڑکوں کے لیے زمین لی گئی اور تقسیمِ وراثت بول کر لڑکوں کو آگے پیچھے تقسیم کی گئی، اب اگر پیچھے رہنے والے ۲ لڑکے اپنے حصے کی جگہ فروخت کرنا چاہیں تو تعمیری کام مشترک ہونے کی وجہ سے اور پیچھے تنگ اور چھوٹی گلی اور شاہراہ عام بھی نہ ہونے کی وجہ سے اِن 2 لڑکوں کو اپنے حصے کی جگہ فروخت کرنے میں حد درجہ دشواریوں کا سامنا ہے، اس حالت میں پیچھے رہنے والے لڑکوں نے زید کی موجودگی میں ہی مشورہ کیا کہ یہ تقسیمِ وراثت صحیح نہیں ہے، اس جگہ کو فروخت کر کے تمام لڑکوں میں رقوم تقسیم کی جائے یا پھر آگے سمت رہنے والے لڑکے پیچھے سمت رہنے آجائیں. مگر اس میں فی الحال پیچھے رہنے والے لڑکوں نے کہا کہ اگر آپ پیچھے آؤ گے تو آپ لوگوں کا حق مارا جائے گا، ہم یہ نہیں چاہتے. اس قسم کی تمام باتوں کی وجہ سے سے زید کے لڑکوں میں پہلے سے جو محبت خلوص ایک دوسرے کا احترام و اکرام تھا وہ مجروح ہوتا گیا اور یہ بات زید کے لڑکوں میں کئی جماعت بندی کر بیٹھی . معاملات لڑائی جھگڑے سے بھی تجاوز ہوتے چلے گئے. دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بغض و عداوت بڑھتی چلی گئی. اس قسم کے بہت سے حالات دینی اعتبار سے بھی مجروح ہوتے گئے. یہ تمام چیزیں زید کی موجودگی میں ہوتی رہی.

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں، زید ابھی حیات ہے؟

3- درج بالا مسئلے میں زید نے جو وراثت 6 لڑکوں میں تقسیم کی اِس جگہ کی خریدی میں اور تمام مکان کی تعمیر میں زید کے ایک لڑکے نے ایک تہائی رقم اپنی ذاتی محنت کی کمائی سے خرچ کی، چوں کہ زید کے لڑکوں میں درج بالا مسئلے کی وجہ سے نفرت بغض اور عداوت بڑھتی چلی گئی. اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے اِس لڑکے نے اپنی ذاتی محنت سے گھر کی تعمیر میں لگائی ہوئی رقم کا مطالبہ کرتا ہے تو اس صورت میں زید کو کیا کرنا چاہیے؟ حال آں کہ  زید کے لڑکوں میں لڑائی جھگڑے سے پہلے زید کے مذکورہ لڑکے کی طرف سے اس قسم کا کوئی مطالبہ نہیں تھا؟  کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کا کیا حل ہے؟

[نوٹ : زید ابھی حیات ہے]

جواب

  1. 2۔3۔ وراثت  موت کے بعد جاری ہوتی ہے ۔زندگی میں اولاد کے درمیان جائیداد وغیرہ  کی تقسیم  وراثت  کی تقسیم نہیں، بلکہ ہبہ ہے۔  ’’ہبہ‘‘اولاد کو کیا جائے اور اولاد دین داری اور خدمت گزاری وغیرہ اوصاف میں برابر ہو تو ان میں مساوات کرنی چاہیے،  لیکن اگر مساوات نہ بھی ہو تو بھی ہبہ درست اور نافذ ہوجاتا ہے، کیوں کہ دینے والا مالک ہونے کی حٰیثیت سے ہر قسم کے تصرف کا اختیار رکھتا ہے۔لہذا مذکورہ ’’ہبہ‘‘  مکمل اور نافذ ہے اور ہر ایک کی ملکیت ثابت ہے اور والد سے کچھ اولاد کا دوبار ہ تقسیم کا مطالبہ درست نہیں۔ اور خو د والد کو بھی اولاد سے زمین یا مکان لینے کاحق نہیں ہے۔بہرحال جب والد نےسب کو قبضہ بھی دےدیا تو ہر ایک کی ملکیت ثابت ہوگئی اور کسی کو والد سے مزید کے مطالبہ کا حق نہیں ہے۔  البتہ اگر والد اپنی خوشی سے پچھلے حصہ والوں کو کچھ مزید دیتے ہیں تو ان کی خوشی اور رضامندی پر ہے۔

نیز اگر تمام بیٹے اس بات پر متفق ہیں کہ اس جگہ کو بیچ کر سب میں رقم برابر تقسیم کردی جائے یا اس جگہ کو بیچنے کے بعد دوسری جگہ رہائش کے لیے جگہ لے لی جائے تو اس طرح بھی صلح کی جاسکتی ہے، الغرض باہم نزاع اور اختلاف بالکل بھی روا نہیں ہے، جس طرح بھی مناسب ہو بھائیوں کو آپس میں صلح کرلینی چاہیے۔

جس لڑکے نے رقم لگا ئی ا گر اس نے یہ تعمیر اپنے والد یا بھائیوں کے لیے تعاون یا تحفے کے طورپر  کی ہو تو اس کو تعاون  اور احسان ہی شمار کیا جائے گا اور اسے اخراجات کے مطالبہ کا حق نہ ہوگا۔

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ کی  روایت میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا، قال: «فأرجعه» . وفي رواية ...... قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»". (مشکاۃ  المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت نعمان بن بشیر  رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر رضی اللہ عنہ) انہیں رسول کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے  اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا :  ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو۔ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ……  آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔(مظاہر حق، 3/193، باب العطایا، ط: دارالاشاعت)

"وشرائط صحتها في الموهوب أن یکون مقبوضاً غیر مشاع..." الخ (االدر المختار مع رد المحتار، کتاب الهبة، ۸: ۴۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

"وتتم الهبة بالقبض الکامل … (في) متعلق ب ”تتم“ (محوز) مفرغ (مقسوم)ومشاع لا) یبقی منتفعاً به بعد أن (یقسم) کبیت وحمام صغیرین لأنها (لا) تتم بالقبض (فیما یقسم الخ) ولو وهبه لشریکه أو لأجنبي لعدم تصور القبض الکامل، کما في عامة الکتب فکان هو المذهب". (المصدر السابق،ص: ۴۹۳، ۴۹۵)

"وهب اثنان دارا لواحد صح لعدم الشیوع، وبقلبه لکبیرین لا عنده للشیوع فیما یحتمل القسمة". (المصدر السابق،ص: ۵۰۲)

"وکما یکون للواهب الرجوع فیها - أي: في الهبة الفاسدة - یکون لوارثه بعد موته؛ لکونها مستحقة الرد". (رد المحتار، ۸: ۴۹۶) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200196

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں