بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

زائد مکان پر زکاۃ کا حکم


سوال

علاوہ اپنی رہائش کے دوسرا مکان ہے۔ زکاۃ کی ادائیگی کی مالیت مکان کی قیمت کے برابر ہے۔

1- کیا مکان کو فروخت کر کے ہی زکاۃ ادا کی جائے یا کوئی  اور صورت ممکن ہے؟

 2-  مکان کو فروخت کے بجائے یہ نیت، اور عملاً یہ وصیت  کردی جائے کہ  جب تک ممکن ہو ، مکان مستقل کرائے پر رہے اور کرائے سے  زکاۃ ادا ہوتی رہے؟

3-  جب تک مکان کے فروخت کے لیے مناسب خریدار یا مناسب قیمت نہ ملے تو کیا مکان کرایہ پر دے کر کرایہ کی رقم زکاۃ کی ادائیگی کی مد میں دینا جائز ہے؟ 

جواب

1، 2، 3 ۔ صورتِ  مسئولہ میں دوسرا مکان اگر اپنی رہائش کی نیت سے خریدا تھا تو اس کی مالیت پر کسی قسم کی کوئی زکاۃ واجب نہ ہوگی، اسی طرح خریدتے وقت کوئی نیت نہیں تھی یا کرایہ پر چڑھانے کی نیت تھی تو بھی مکان کی مالیت پر زکاۃ واجب نہیں ہوگی۔ البتہ اگر خریدتے وقت تجارت (نفع پر بیچنے) کی نیت تھی اور اب تک یہی نیت ہے، رہائش یا کرایہ پر دینے کی نیت نہیں کی تو مکان کی کل مالیت پر زکاۃ ہوگی۔ 

اور اگر فی الحال وہ مکان کرایہ پر دے دیا ہے یا تجارت کی نیت ختم کرکے اپنے استعمال کی نیت کرلی ہے تو اب اصل مالیت پر زکاۃ واجب نہیں ہے، جہاں تک کرایہ کی مد سے ہونے والی آمدنی پر زکاۃ کا تعلق ہے تو اگر کرایہ کی رقم دورانِ سال استعمال کرلی جاتی ہو تو اس پر بھی زکاۃ واجب نہ ہوگی، البتہ اگر کرایہ محفوظ رہتا ہو، اور سائل پہلے سے صاحبِ نصاب ہو یا کرایہ کی مد میں جمع شدہ رقم نصاب کے برابر ہو تو زکاۃ کے سال کے اختتام پر حساب کرکے کل کا ڈھائی فیصد بطورِ زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگا۔ فقط واللہ اعلم

نوٹ: سائل کے سوال کا اگر کچھ اور مقصد ہو تو اس مقصد کی وضاحت کرکے سوال دوبارہ پوچھ لیا جائے۔ 


فتوی نمبر : 144103200077

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں