بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

احرام کی چادر بیگ میں بھول گیا، اور جدہ پہنچنے سے پہلے جہاز میں عمرہ کی نیت کرلی، پھر سامان نہیں آیا، اب کیا کرے؟


سوال

زید ریاض سے جدہ فلائٹ سے آیا اور پلین ہی میں عمرہ کی نیت کر لی،  لیکن احرام کی چادر اس کے بیگ میں تھی اور وہ جدہ اتر کر پہننے والا ہی تھا،  لیکن بیگ نہیں آیا ، تو کیا اب وہ اس کے سلے ہوئے کپڑے میں عمرہ کر سکتا ہے؟

جواب

ریاض سے جدہ آتے ہوئے چوں کہ راستے میں میقات آتا ہے؛  اس لیے زید کو چاہیے تھا کہ وہ جہاز  میں بیٹھنے سے پہلے ہی احرام کی چادر باندھ لیتا یا کم از کم میقات آنے سے پہلے جہاز کے اندر باندھ لیتا،  کیوں کہ احرام کی حالت میں سلے ہوئے ہوئے کپڑے پہننا منع ہے،  لیکن اگر جہاز میں سوار ہوتے وقت زید نے احرام کی چادر نہیں باندھی تھی اور جہاز میں چادر دست یاب نہ ہونے کی وجہ سے میقات سے گزرنے سے پہلے سلے ہوئے کپڑوں میں عمرہ کی نیت کرلی تھی تو جدہ میں جہاز سے اترتے ہی اسے سلے ہوئے کپڑے اتار کر احرام کی چادر باندھ لینی چاہیے، سلے ہوئے کپڑوں میں ہی عمرہ کرنا درست نہیں ہے، اگر بیگ نہیں آیا جس میں چادر تھی تو بازار سے احرام کی چادر خرید کر یا کسی سے عاریتاً لے کر عمرہ اس چادر میں عمرہ کرنا چاہیے۔

باقی دم واجب ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ عمرہ کے احرام کی نیت سے تلبیہ پڑھنے کے بعد اگر ایک پورا دن یا ایک پوری رات کے بقدر سلے ہوئے کپڑے پہنا رہا (یعنی بارہ گھنٹے یا اس سے زیادہ) تو دم واجب ہوگا، لیکن اگر ایک دن یا رات کی مقدار سے کم  وقت تک سلے ہوئے کپڑے پہننے کے بعد اتار دیے تو دم واجب نہیں ہوگا، بلکہ صدقہ فطر کے بقدر یعنی  تقریباً دو کلو گندم یا اس کی قیمت صدقہ کرنا لازم ہوگی۔

اگر ایک رات یا ایک دن سے کم وقت میں ہی سلے ہوئے کپڑوں میں عمرہ مکمل کرکے حلق کروالیا تو اگر صاحبِ استطاعت ہو تو احتیاطاً دم دے، اگر دم کی استطاعت نہ ہو تو صدقہ ضرور دے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 543):

"(الواجب دم على محرم بالغ) ...  (أو لبس مخيطاً) لبساً معتاداً، ولو اتزره أو وضعه على كتفيه لا شيء عليه (أو ستر رأسه) بمعتاد إما بحمل إجانة أو عدل فلا شيء عليه (يوماً كاملاً) أو ليلةً كاملةً، وفي الأقل صدقة (والزائد) على اليوم (كاليوم).

 (قوله: يوماً كاملاً أو ليلةً) الظاهر أن المراد مقدار أحدهما، فلو لبس من نصف النهار إلى نصف الليل من غير انفصال أو بالعكس لزمه دم، كما يشير إليه قوله: وفي الأقل صدقة، شرح اللباب. (قوله: وفي الأقل صدقة) أي نصف صاع من بر، وشمل الأقل الساعة الواحدة أي الفلكية وما دونها خلافاً لما في خزانة الأكمل أنه في ساعة نصف صاع وفي أقل من ساعة قبضة من بر. اهـ. بحر، ومشي في اللباب على ما في الخزانة، وأقره شارحه، واعترض بمخالفته لما ذكره الفقهاء. [تنبيه]

ذكر بعض شراح المناسك: لو أحرم بنسك وهو لابس المخيط وأكمله في أقل من يوم وحل منه لم  أر فيه نصاً صريحاً، ومقتضى قولهم: إن الارتفاق الكامل الموجب للدم لايحصل إلا بلبس يوم كامل أن تلزمه صدقة. ويحتمل أن يقال: إن التقدير باليوم باعتبار كمال الارتفاق إنما هو فيما إذا طال زمن الإحرام، أما إذا قصر كما في مسألتنا فقد حصل كمال الارتفاق؛ فينبغي وجوب الدم، ولكن مع هذا لا بد من نقل صريح". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200096

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں