بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رکوع میں ہاتھ گھٹنوں پررکھنے کا ثبوت


سوال

 رکوع میں ہاتھ گھٹنوں پررکھنے کا کیاثبوت ہے؟

جواب

رکوع کا حکم اللہ تعالی نے قرآن میں بھی ارشاد فرمایا ہے ، اور رکوع اس قدر جھکنے کو کہتے ہیں کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ سکیں،  نیز ترمذٰی شریف  میں گھٹنوں کو ہاتھوں سے پکڑنے کا حکم ارشاد ہے۔

"80. باب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَدَيْنِ عَلَى الرُّكْبَتَيْنِ فِي الرُّكُوعِ حدیث نمبر: 258:

" عن أبي عبد الرحمن السلمي، قال: قال لنا عمر بن الخطاب رضي الله عنه: " إن الركب سنة لكم فخذوا بالركب". قال: وفي الباب عن سعد، وأنس، وأبي حميد، وأبي أسيد، وسهل بن سعد، ومحمد بن مسلمة، وأبي مسعود. قال أبو عيسى: حديث عمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم والتابعين، ومن بعدهم لا اختلاف بينهم في ذلك، إلا ما روي عن ابن مسعود وبعض أصحابه، أنهم كانوا يطبقون والتطبيق منسوخ عند أهل العلم.

ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ ہم سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گھٹنوں کو پکڑنا تمہارے لیے مسنون کیا گیا ہے، لہٰذا تم (رکوع میں) گھٹنے پکڑے رکھو۔ 

لہذا رکوع میں مرد کا گھٹنوں کوہاتھ سے پکڑنا اور  انگلیاں خوب کھلی رکھنا سنت ہے۔ رکوع میں ٹانگیں سیدھی رکھنا چاہیے، بعض لوگ ٹانگوں میں خم دے کر کمان کی طرح ٹیڑھی کرلیتے ہیں، یہ مکروہ ہے۔ ( عالمگیری ج1 ص74 )

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 447):
"(قوله: بحيث لو مد يديه إلخ) كذا في السراج. وفي شرح المنية: هو طأطأة الرأس أي خفضه، لكن مع انحناء الظهر؛ لأنه هو المفهوم من موضوع اللغة، فيصدق عليه قوله تعالى: {اركعوا} [الحج: 77]، وأما كماله فبانحناء الصلب حتى يستوي الرأس بالعجز، وهو حد الاعتدال فيه اهـ لكن ضعفه في شرح المختار، حيث قال: الركوع يتحقق بما ينطلق عليه الاسم؛ لأنه عبارة عن الانحناء، وقيل: إن كان إلى حال القيام أقرب لايجوز، وإن كان إلى حال الركوع أقرب جاز. اهـ. وتمامه في الإمداد، وما اختاره في شرح المختار هو الموافق لما قرره علماؤنا في كتب الأصول. وفي شرح الشيخ إسماعيل عن المحيط وإن طأطأ رأسه في الركوع قليلاً ولم يعتدل فظاهر الجواب عن أبي حنيفة أنه يجوز. وروى الحسن أنه إن كان إلى الركوع أقرب يجوز، وإن كان إلى القيام أقرب لايجوز اهـ. وفي حاشية الفتال عن البرجندي: ولو كان يصلي قاعدًا ينبغي أن يحاذي جبهته قدام ركبتيه ليحصل الركوع. اهـ. قلت: ولعله محمول على تمام الركوع، وإلا فقد علمت حصوله بأصل طأطأة الرأس أي مع انحناء الظهر، تأمل".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200215

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں