بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

رکشہ قسطوں پرلینا


سوال

ایک شخص نے لون پر آٹو  رکشا لیا ہے جس کی قسطیں ابھی سود سمیت بھرنا باقی ہے، اب اس رکشا کو میں لینا چاہتا ہوں، اس طرح کہ بقیہ قسطیں مجھے بھرنی ہیں تو  کیا میں یہ معاملہ کر سکتا ہوں؟ خاص طور پر روشنی اس پر ڈالیں کہ میں نے براہِ  راست کمپنی سے معاملہ نہیں کیا ہے،  اس کے باوجود اوپر کی زائد رقم میرے حق میں سود کے حکم میں آئے گی؟ 

جواب

سائل کا مقصود سود سے اگر وہ اضافی رقم ہے جو قسطوں کی صورت میں خریداری کے وقت نقد کے مقابلے میں زیادہ طے کی جاتی ہے (اور مذکورہ صورت میں سودے کی وقت رکشا کی مجموعی قیمت متعینہ طور پر طے کردی گئی تھی) تو یہ رقم سود نہیں ہے، لہذا اس صورت میں سائل کے لیے رکشہ لے کر قسطیں اپنی طرف کرنا جائز ہوگا۔

البتہ اگر سود سے مراد  وہ رقم ہے جو قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت مٰیں کمپنیاں جرمانہ کی شکل میں وصول کرتی ہیں، اس صورت  میں اگر رکشا والے نے یہ معاہدہ کیا ہو کہ وہ تاخیر پر جرمانہ اداکرے گا توسائل کے لیے ایسارکشہ خریدنا مکروہ ہے۔

اور اگر سود سے مراد یہ ہو کہ رکشا خریدنے والے نے کسی سے سود پر رقم لے کر رکشا نقد خریدا تھا اور اب وہ قرض کی قسطیں سود سمیت ادا نہیں کرپا رہا، بنا بریں سودی رقم کا معاہدہ سائل کی طرف منتقل کررہاہے، تو سائل کے لیے مذکورہ سودی معاہدے کی بقیہ اقساط ادا کرنا جائز نہیں ہوگا، کیوں کہ اس صورت میں سائل سودی معاملے کا حصہ بن رہاہے، اگر یہی صورت ہے تو سائل کو چاہیے کہ وہ رکشے کے خریدار سے صرف رکشا خریدنے کا معاہدہ کرے، اور اس کی ایک قیمت طے کردے، پھر اس معاہدے کے مطابق رکشے کی قیمت کی مد میں اقساط ادا کرتا رہے۔ رہی بات پہلے سودی معاہدے کی (اگر واقعۃً ہوا ہو) تو اس کا ذمہ دار پہلا خریدار ہوگا، اسے چاہیے کہ وہ اپنا سودی معاہدہ ختم کرکے صدقِ دل سے توبہ و استغفار کرے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201061

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں