بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

روزے کی حالت میں انجیکشن لگوانا


سوال

ہمارے ہاں تاجکستان میں اس مسئلہ میں بہت اختلاف ہے کہ سوئی لگوانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا، چاہے وہ انجیکشن کسی بھی مقصد کا ہو، طاقت کا ہو یا دوا کا، کہ جس سے انسان اپنی جگہ سے اٹھ جائے،  تو روزہ ٹوٹ جائے گا،  ان کی دلیل  (الفطر مما دخل والوضوء مما خرج ) ہے،  اس مسئلہ کا تفصیلی جواب دے دیں، اور  درج بالا دلیل کا مطلب بھی بتادیں اور کیا یہ حدیث ثابت ہے؟

جواب

روزے کی حالت میں انجکشن لگوانا جائز ہے، خواہ رگ میں لگوایا جائے یا گوشت میں؛ کیوں کہ انجکشن کے ذریعہ جو دوا بدن میں پہنچائی جاتی ہے وہ اصلی راستوں (منافذِ خلقی )سے نہیں، بلکہ رگوں یا مسامات کے ذریعہ بدن میں جاتی ہے، جب کہ روزہ فاسد ہونے کے لیے ضروری ہے کے بدن کے اصلی راستوں سے کوئی چیز جسم کے اندر پہنچے اور انجکشن میں ایسا نہیں ہوتا، لہٰذا روزہ کی حالت میں انجکشن لگانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا،  اور   ’’الْفِطْرُ مِمَّا دَخَلَ‘‘ کا یہی مطلب ہے  کہ جسم میں موجود  خلقی سوراخوں سے کسی سیال مادے کا دماغ یا پیٹ تک پہنچ جانا یا غیر سیال مادے کا ان خلقی راستوں سے بالیقین پیٹ یا دماغ تک پہنچ جانا۔

مذکورہ روایت باتفاقِ فقہاء مساموں کے راستے یا غیر خلقی راستوں سے جسم کے اندر کسی چیز کے داخل ہونے کو شامل نہیں، یہی وجہ ہے کہ روزے دار کے لیے تیل لگانے، نہانے وغیرہ کی اجازت ہے، اور اس سے روزہ فاسد بھی نہیں ہوتا، باوجود اس کے کہ تیل لگانے یا نہانے کے نتیجہ میں جسم کے مساموں سے تیل یا پانی جسم میں داخل ہوتا ہے۔

البتہ بلا ضرورت روزے کا احساس نہ ہونے کے لیے طاقت کا انجکشن یا ڈرپ لگانا مکروہ ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قَالَ فِي النَّهْرِ:؛ لِأَنَّ الْمَوْجُودَ فِي حَلْقِهِ أَثَرٌ دَاخِلٌ مِنْ الْمَسَامِّ الَّذِي هُوَ خَلَلُ الْبَدَنِ وَالْمُفْطِرُ إنَّمَا هُوَ الدَّاخِلُ مِنْ الْمَنَافِذِلِلِاتِّفَاقِ عَلَى أَنَّ مَنْ اغْتَسَلَ فِي مَاءٍ فَوَجَدَ بَرْدَهُ فِي بَاطِنِهِ أَنَّهُ لَايُفْطِرُ". ( ٢ / ٣٩٥)

البحر الرائق میں ہے:

"(قوله: أو ادهن أو احتجم أو اكتحل أو قبل) أي لا يفطر؛ لأن الادهان غير مناف للصوم، ولعدم وجود المفطر صورة ومعنى والداخل من المسام لا من المسالك فلا ينافيه كما لو اغتسل بالماء البارد، ووجد برده في كبده، وإنما كره أبو حنيفة الدخول في الماء والتلفف بالثوب المبلول لما فيه من إظهار الضجر في إقامة العبادة لا؛ لأنه قريب من الإفطار، كذا في فتح القدير". ( ٢ / ٢٩٣)

’’الْفِطْرُ مِمَّا دَخَلَ‘‘ (الحدیث)  کو متعدد محدثین نے نقل کیا ہے، تاہم صحیح بات یہ ہے کہ یہ مرفوع نہیں موقوف  روایت ہے۔

البناية شرح الهداية میں ہے:

"م: «لقوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ [الفطر مما دخل» ش: هذا الحديث] رواه أبو يعلى الموصلي في " مسنده " حدثنا أحمد بن منيع حدثنا مروان بن معاوية «عن رزين البكري قال: حدثتنا مولاة لنا يقال لها "سلمى بنت بكر بن وائل" أنها سمعت عائشة - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا - تقول: دخل علي رسول الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فقال: يا عائشة هل من كسرة؟ فأتيته بقرص فوضعه على فيه، فقال: يا عائشة! هل دخل بطني منه شيء، كذلك قبلة الصائم، إنّما الإفطار مما دخل وليس مما خرج». وروى عبد الرزاق في " مصنفه " هذا موقوفاً على ابن مسعود فقال: أخبرنا الثوري عن وائل ابن داود عن أبي هريرة عن عبد الله بن مسعود - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - قال: إنما الوضوء مما خرج وليس مما دخل، والفطر في الصوم مما دخل وليس مما خرج. ومن طريق عبد الرزاق أخرجه الطبراني في " معجمه "، ورواه ابن أبي شيبة في " مصنفه " موقوفاً على ابن عباس - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - فقال: حدثنا وكيع عن الأعمش عن أبي ظبيان عن ابن عباس قال: الفطر مما دخل وليس مما خرج. وكذلك رواه البيهقي وقال: وروي من قول علي - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -، وروي عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ولا يثبت، وذكره البخاري في " صحيحه " تعليقاً، وقال ابن عباس وعكرمة: الصوم مما دخل وليس مما خرج، ولوجود معنى الفطر". ( البناية شرح الهداية، الحقنة والقطرة للصائم، ٤ / ٦٤ - ٦٥) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200856

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں