بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

روزہ کے کفارہ میں تداخل ہوگا یا نہیں؟


سوال

کیا کفارات رمضان میں تداخل ہے؟ روزہ  اگر جماع سے نہیں توڑا ہو؟

جواب

واضح رہے کہ بلا عذر روزہ توڑنے کی دو صورتیں ہیں:

(۱)روزہ بغیر جماع کے مثلاً عمداً کھانے پینے سے توڑا ہو۔ (۲)روزہ عمداً جماع سے توڑا ہو۔

کفارہ صوم میں تداخل ہونے نہ ہونے سے متعلق دونوں صورتوں کا حکم مختلف ہےجودرجِ ذیل ہے:

اگر متعدد روزے عمداً  کھانے پینے سے توڑے ہوں تو یہ روزے خواہ ایک رمضان کے ہوں یا کئی رمضان کے ان سب کے بدلے میں ایک کفارہ کی ادائیگی کافی ہوگی، البتہ اگر کفارہ ادا کرنے کے بعد پھر کوئی روزہ عمداً  کھانے یا پینے سے توڑا تو اس کا کفارہ الگ ادا کرنا ہوگا، چاہے ایسا ایک ہی رمضان میں کیوں نہ ہوا ہو۔

اگر ایک رمضان میں متعدد روزے قصداً جماع سے توڑے ہوں تو ادائیگی کفارہ میں تداخل ہوگا، یعنی ان سب کے بدلہ میں ایک کفارہ ادا کرنا کافی ہوگا، البتہ اگر جماع کے ذریعہ دو یا دو سے زائد رمضانوں میں روزے توڑے ہوں تو تداخل نہیں ہوگا، بلکہ ہر رمضان کے روزوں کا کفارہ الگ الگ ادا کرنا لازم ہوگا۔ ( امدادالفتاوٰی :٢/ ١٣٤)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 101):

’’ولو جامع في رمضان متعمداً مراراً بأن جامع في يوم ثم جامع في اليوم الثاني ثم في الثالث ولم يكفر فعليه لجميع ذلك كله كفارة واحدة عندنا، ولو جامع في يوم ثم كفر ثم جامع في يوم آخر فعليه كفارة أخرى في ظاهر الرواية، ولو جامع في رمضانين ولم يكفر للأول فعليه لكل جماع كفارة في ظاهر الرواية، وذكر محمد في الكيسانيات أن عليه كفارة واحدة، وكذا حكى الطحاوي عن أبي حنيفة‘‘.

الدر المختار (2/ 413):

’’ولو تكرر فطره ولم يكفر للأول يكفيه واحدة ولو في رمضانين عند محمد، وعليه الاعتماد، بزازية ومجتبى وغيرهما، واختار بعضهم للفتوى أن الفطر بغير الجماع تداخل وإلا لا‘‘

حاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 413):

’’(قوله: وعليه الاعتماد) نقله في البحر عن الأسرار، ونقل قبله عن الجوهرة: لو جامع في رمضانين فعليه كفارتان وإن لم يكفر للأولى، في ظاهر الرواية، وهو الصحيح. قلت: فقد اختلف الترجيح كما ترى ويتقوى الثاني بأنه ظاهر الرواية‘‘. فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200653

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں