بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور ام المؤمنین حضرت خدیجہ کا نکاح


سوال

آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا پہلا نکاح حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا سے کب اور کہاں اور کس طرح منعقد ہوا  اور کن لوگوں نے نکاح پڑھایا  یا اس وقت کیا رسم و رواج تھا؟

جواب

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ شام سے واپسی پر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے غلام ’’میسرہ‘‘نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصافِ حمیدہ جب ان کو بتلائے تو انہوں نے بالواسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ارادہ سے آگاہ فرمایا،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچاؤں کو مذکورہ رشتہ کے سلسلہ میں آگاہ فرمایا، جس کے بعد آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد خویلد بن اسد کے پاس رشتہ لے کر آئے بمطابق روایتِ ابن اسحاق، جب کہ مبرد و دیگر کے قول کے مطابق حضرت خدیجہ کے والد کا انتقال ہو چکا تھا، حضرت حمزہ رشتہ لے کر حضرت خدیجہ کے چچا عمرو بن اسد کے پاس تشریف لائے، رشتہ طے پانے کے بعد ابو طالب نے خطبۂ  نکاح پڑھا، اور مہر کی ادائیگی کی ذمہ داری خود اپنے سر لی،  اور بیس بکرہ ( ایک خاص قسم کا آلہ ہوتا تھا، جو کپڑا کاتنے کے کام آتا تھا،  جیسے کھڈی مہر طے پایا،  جوکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ادا کیا، اور خاندان کے ان ہی افراد کی موجودگی میں دستور کے مطابق آپ دونوں حضرات رشتہ ازدواج سے منسلک ہوگئے۔

مذکورہ نکاح نبوت ملنے سے پہلے ہوا تھا، اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حیات رہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی اور سے نکاح نہ کیا۔

بعض روایات میں ابوطالب کا یہ خطبۂ نکاح درج ذیل الفاظ میں موجود ہے:

"الحمد لله الذي جعلنا من ذرية إبراهيم، و زرع السماعيل، و جعل لنا بلدًا حرامًا، و بيتًا محجوجًا، و جعلنا الحكام على الناس، و أن محمداً بن عبد الله، ابن أخي، لايوازن به فتى من قريش إلا رجح به بركةً، وفضلاً و عدلاً و مجداً و نبلاً وإن كان في المال مقلاً، فإن المال عارية مسترجعة، و ضل زائل، وله في خديجة بنت خويلد رغبة ولها فيه مثل ذلك، و ما أردتم في ذلك فعليّ."

رسول اللہ ﷺ کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے حوالے سے ایک پہلو ملحوظ رہنا چاہیے، جس سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طہارت و نزاہت اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نکاح میں رغبت کی وجہ آشکارا ہوجاتی ہے، چناں چہ بعض روایات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچا زاد ورقہ بن نوفل جو زمانۂ جاہلیت میں ہی نصرانیت قبول کرچکے تھے، اور عبرانی زبان بھی جانتے تھے اور انجیل عبرانی میں پڑھ کر اپنے اقرباء کو اس کی روشنی میں وعظ و نصیحت بھی کرتے تھے اور ایک آخری نبی کے آنے کی بشارت بھی سناتے تھے ، عمر کے اعتبار سے یہ بزرگ تھے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ان کے یہ نصائح  اور سچے نبی کی بشارت  بہت شوق و رغبت سے سنتی تھیں،  نیز یہ بھی سنتی تھیں کہ اس نبی عظیم الشان کی بعثت کا زمانہ قریب ہے، اور اس حوالے سے انہوں نے ورقہ بن نوفل سے کافی کچھ سن رکھا تھا، چناں چہ رسول اللہ ﷺ  کی صداقت و دیانت اور دیگر صفاتِ کمال کا ذکر سنا اور ورقہ بن نوفل کی بتلائی ہوئی بعض علاماتِ نبوت آپ ﷺ میں پائیں تو انہوں نے اپنے غلام ’’میسرہ‘‘ کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو مالِ تجارت دے کر اسی لیے بھیجا کہ آپ ﷺ کے تجارتی و مالی معاملات اور سفر میں آپ ﷺ کے اخلاق و عادات کا مزید مشاہدہ کرسکیں، اسی لیے بعض روایات میں ہے کہ انہوں نے غلام کو ہدایت کی تھی کہ سفر کے تمام واقعات نوٹ کرے اور واپسی پر پوری تفصیل بتائے، اسی ہدایت کی روشنی میں غلام نے آپ ﷺ کی برکت وغیرہ کے حوالے سے جن کمالات کا مشاہدہ کیا وہ سب تفصیل بتادی، اس سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا  ظن غالب ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ کے آخری رسول یہی ہیں، اور انہوں نے یہ سوچا کہ اس سے بڑی سعادت کیا ہوگی کہ آپ ﷺ کی زوجیت کے رشتے سے منسلک ہوجاؤں، چناں چہ صدیقہ طاہرہ و مطہرہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے بالواسطہ آپ ﷺ کو پیغامِ نکاح بھیج دیا، اور پھر جس ثمرے کی وہ منتظر تھیں رسول اللہ ﷺ کی پہلی وحی کے نزول کے ساتھ ہی ان کی امید بر آئی اور فرطِ خوشی میں رسول اللہ ﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس اسی لیے ساتھ لے گئیں  کہ ورقہ بالمشافہہ آپ ﷺ کی گفتگو سن کر تصدیق کردیں کہ یہی وہ رسول ہیں جن کا ذکر انجیل کی روشنی میں وہ کرتے آئے تھے۔

(معجم الوسيط):

"البَكْرَةُ: خشبة مستديرة في جوفها مِحْور تدور عليه. البَكْرَةُ أُسطوانة من خشَب ونحوه، يُلَف عليها الخيط".

تاريخ الإسلام للذهبي  میں ہے:

"قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ : ثُمَّ إِنَّ «خديجة بنت خويلد بْن أسد بْن عَبْد الْعُزَّى بْنِ قُصَيٍّ» وَهِيَ أَقْرَبُ مِنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قُصَيٍّ بِرَجُلٍ، كَانَتِ امْرَأَةً تَاجِرَةً ذَاتَ شَرَفٍ وَمَالٍ، وَكَانَتْ تَسْتَأْجِرُ الرِّجَالَ فِي مَالِهَا، وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُجَّارًا فَعَرَضَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَخْرُجَ فِي مَالٍ لَهَا إِلَى الشَّامِ ، وَمَعَهُ غلام لها اسْمُهُ «مَيْسَرَةُ» ، فَخَرَجَ إِلَى الشَّامِ، فَنَزَلَ تَحْتَ شَجَرَةٍ بِقُرْبِ صَوْمَعَةٍ، فَأَطَلَّ الرَّاهِبُ إِلَى مَيْسَرَةَ فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالَ: رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ، قَالَ: مَا نَزَلَ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا نَبِيٌّ . ثُمَّ بَاعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِجَارَتَهُ وَتَعَوَّضَ وَرَجَعَ، فَكَانَ «مَيْسَرَةُ» - فِيمَا يَزْعُمُونَ- إِذَا اشْتَدَّ الْحَرُّ يَرَى مَلَكَيْنِ يُظِلَّانِهِ مِنَ الشَّمْسِ وَهُوَ يَسِيرُ.... وَحَدَّثَهَا «مَيْسَرَةُ» عَنْ قَوْلِ الرَّاهِبِ، وَعَنِ الْمَلَكَيْنِ، وَكَانَتْ لَبِيبَةً حَازِمَةً، فَبَعَثَتْ إِلَيْهِ تَقُولُ: يَا بْنَ عَمِّي، إِنِّي قَدْ رَغِبْتُ فِيكَ لِقَرَابَتِكَ وأمانتك وصدقك وحسن خلفك، ثُمَّ عَرَضَتْ عَلَيْهِ نَفْسَهَا، فَقَالَ ذَلِكَ لِأَعْمَامِهِ، فَجَاءَ مَعَهُ حَمْزَةُ عَمُّهُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خُوَيْلِدٍ فَخَطَبَهَا مِنْهُ، وَأَصْدَقَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ بَكْرَةً، فَلَمْ يَتَزَوَّجْ عَلَيْهَا حَتَّى مَاتَتْ. وَتَزَوَّجَهَا وَعُمْرُهُ خَمْسٌ وَعِشْرُونَ سَنَةً". (تاريخ الاسلام- ت: التدمري: شَأْنُ خَدِيجَةَ، ١ / ٦٣ -٦٤، ط: دار الكتاب العربي)

البداية النهاية لإبن كثير  میں ہے:

"قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَكَانَتْ خَدِيجَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ امْرَأَةً تَاجِرَةً ذَاتَ شَرَفٍ وَمَالٍ تَسْتَأْجِرُ الرِّجَالَ عَلَى مَالِهَا مُضَارَبَةً فَلَمَّا بَلَغَهَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَلَغَهَا مِنْ صِدْقِ حَدِيثِهِ وَعِظَمِ أَمَانَتِهِ وَكَرَمِ أَخْلَاقِهِ بَعَثَتْ إِلَيْهِ فَعَرَضَتْ عَلَيْهِ أَنْ يَخْرُجَ لَهَا فِي مَالِهَا تَاجِرًا إِلَى الشَّامِ، وَتُعْطِيهِ أَفْضَلَ مَا تُعْطِي غَيْرَهُ مِنَ التُّجَّارِ مَعَ غُلَامٍ لَهَا يُقَالَ لَهُ: مَيْسَرَةُ فَقَبِلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، وَخَرَجَ فِي مَالِهَا ذَاكَ، وَخَرَجَ مَعَهُ غُلَامُهَا مَيْسَرَةُ حَتَّى نَزَلَ الشَّامَ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّ شَجَرَةٍ قَرِيبًا مِنْ صَوْمَعَةِ رَاهِبٍ مِنَ الرُّهْبَانِ فَاطَّلَعَ الرَّاهِبُ إِلَى مَيْسَرَةَ فَقَالَ: مَنْ هَذَا الرَّجُلُ الَّذِي نَزَلَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ؟ فَقَالَ مَيْسَرَةُ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ أَهْلِ الْحَرَمِ. فَقَالَ لَهُ الرَّاهِبُ: مَا نَزَلْ تَحْتَ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا نَبِيٌّ. ثُمَّ بَاعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِلْعَتَهُ - يَعْنِي تِجَارَتَهُ - الَّتِي خَرَجَ بِهَا، وَاشْتَرَى مَا أَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَ، ثُمَّ أَقْبَلَ قَافِلًا إِلَى مَكَّةَ، وَمَعَهُ مَيْسَرَةُ فَكَانَ مَيْسَرَةُ - فِيمَا يَزْعُمُونَ - إِذَا كَانَتِ الْهَاجِرَةُ وَاشْتَدَّ الْحَرُّ يَرَى مَلَكَيْنِ يُظِلَّانِهِ مِنَ الشَّمْسِ وَهُوَ يَسِيرُ عَلَى بَعِيرِهِ. فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ عَلَى خَدِيجَةَ بِمَالِهَا، بَاعَتْ مَا جَاءَ بِهِ فَأَضْعَفَ أَوْ قَرِيبًا، وَحَدَّثَهَا مَيْسَرَةُ عَنْ قَوْلِ الرَّاهِبِ، وَعَمَّا كَانَ يَرَى مِنْ إِظْلَالِ الْمَلَكَيْنِ إِيَّاهُ، وَكَانَتْ خَدِيجَةُ امْرَأَةً حَازِمَةً شَرِيفَةً لَبِيبَةً مَعَ مَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَا مِنْ كَرَامَتِهَا فَلَمَّا أَخْبَرَهَا مَيْسَرَةُ مَا أَخْبَرَهَا بَعَثَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَهُ: - فِيمَا يَزْعُمُونَ - يَا ابْنَ عَمِّ إِنِّي قَدْ رَغِبْتُ فِيكَ; لِقَرَابَتِكَ وَسِطَتِكَ فِي قَوْمِكَ، وَأَمَانَتِكَ وَحُسْنِ خُلُقِكَ، وَصِدْقِ حَدِيثِكَ، ثُمَّ عَرَضَتْ نَفْسَهَا عَلَيْهِ. وَكَانَتْ أَوْسَطَ نِسَاءِ قُرَيْشٍ نَسَبًا، وَأَعْظَمَهُنَّ شَرَفًا، وَأَكْثَرَهُنَّ مَالًا كُلُّ قَوْمِهَا كَانَ حَرِيصًا عَلَى ذَلِكَ مِنْهَا لَوْ يَقْدِرُ عَلَيْهِ فَلَمَّا قَالَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ ذَلِكَ لِأَعْمَامِهِ فَخَرَجَ مَعَهُ عَمُّهُ حَمْزَةُ حَتَّى دَخَلَ عَلَى خُوَيْلِدِ بْنِ أَسَدٍ فَخَطَبَهَا إِلَيْهِ فَتَزَوَّجَهَا عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ. قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: فَأَصْدَقَهَا عِشْرِينَ بَكْرَةً، وَكَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَةٍ تَزَوَّجَهَا، وَلَمْ يَتَزَوَّجْ عَلَيْهَا غَيْرَهَا حَتَّى مَاتَتْ". ( تَزْوِيجُهُ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ خَدِيجَةَ بِنْتَ خُوَيْلِدٍ، ٣ / ٤٦٢ - ٤٦٣، ط: دار هجر للطباعة و النشر و التوزيع و الإعلان)

سيرة ابن هشام ( ت: السقا)  میں ہے:

"(زَوَاجُهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَدِيجَةَ) : فَلَمَّا قَالَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذكر ذَلِك لَا عِمَامَة فَخَرَجَ مَعَهُ عَمُّهُ حَمْزَةُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، رَحِمَهُ اللَّهُ، حَتَّى دَخَلَ عَلَى خُوَيْلِدِ بْنِ أَسَدٍ، فَخَطَبَهَا إلَيْهِ، فَتَزَوَّجَهَا. قَالَ ابْنُ هِشَامٍ: وَأَصْدَقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ بَكْرَةً، وَكَانَتْ أَوَّلَ امْرَأَةٍ تَزَوَّجَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَتَزَوَّجْ عَلَيْهَا غَيْرَهَا حَتَّى مَاتَتْ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا". ( ١ / ١٩٠، ط: شركة مكتبة و مطبعة مصطفي الحلبي)

الروض الأنف في شرح السيرة النبوية للسهيلي  میں ہے:

"مَنْ الّذِي زَوّجَ خَدِيجَةَ؟ فَصْلٌ: وَذَكَرَ مَشْيَ رَسُولِ اللهِ- صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- إلَى خُوَيْلِدِ بْنِ أَسَدٍ مَعَ عَمّهِ حَمْزَةَ- رَضِيَ اللهُ عَنْهُ- وَذَكَرَ غَيْرُ ابْنِ إسْحَاقَ أَنّ خُوَيْلِدًا كَانَ إذ ذاك قد هلك، وَأَنّ الّذِي أَنْكَحَ خَدِيجَةَ- رَضِيَ اللهُ عَنْهَا- هُوَ عَمّهَا عَمْرُو بْنُ أَسَدٍ، قَالَهُ الْمُبَرّدُ وَطَائِفَةٌ مَعَهُ، وَقَالَ أَيْضًا: إنّ أَبَا طَالِبٍ هُوَ الّذِي نَهَضَ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  وَهُوَ الّذِي خَطَبَ خُطْبَةَ النّكَاحِ، وَكَانَ مِمّا قَالَهُ فِي تِلْكَ الْخُطْبَةِ: «أَمّا بَعْدُ: فَإِنّ مُحَمّدًا مِمّنْ لَا يُوَازَنُ بِهِ فَتًى مِنْ قُرَيْشٍ إلّا رَجَحَ بِهِ شرفا ونبلا وفضلا وعقلا، وإن كان فى المال قلّ، فإنما المال ظِلّ زَائِلٌ، وَعَارِيَةٌ مُسْتَرْجَعَةٌ، وَلَهُ فِي خَدِيجَةَ بِنْتِ خُوَيْلِدٍ رَغْبَةٌ، وَلَهَا فِيهِ مِثْلُ ذَلِكَ»

فَقَالَ عَمْرٌو: هُوَ الْفَحْلُ الّذِي لَا يُقْدَعُ أَنْفُهُ، فَأَنْكَحَهَا مِنْهُ، وَيُقَالُ: قَالَهُ وَرَقَةُ بْنُ نَوْفَلٍ، وَاَلّذِي قَالَهُ الْمُبَرّدُ هُوَ الصّحِيحُ؛ لِمَا رواه الطّبَرِيّ عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، وَعَنْ ابْنِ عَبّاسٍ، وَعَنْ عَائِشَةَ- رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ كُلّهِمْ- قَالَ: إنّ عَمْرَو بْنَ أَسَدٍ هُوَ الّذِي أَنْكَحَ خَدِيجَةَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنّ خُوَيْلِدًا كَانَ قَدْ هَلَكَ قَبْلَ الفجار، وخويلد ابن أَسَدٍ هُوَ الّذِي نَازَعَ تُبّعًا الْآخَرَ حِينَ حَجّ، وَأَرَادَ أَنْ يَحْتَمِلَ الرّكْنَ الْأَسْوَدَ مَعَهُ إلَى الْيَمَنِ، فَقَامَ فِي ذَلِكَ خُوَيْلِدٌ، وَقَامَ مَعَهُ جَمَاعَةٌ، ثُمّ إنّ تُبّعًا رُوّعَ فِي مَنَامِهِ تَرْوِيعًا شَدِيدًا حَتّى تَرَكَ ذَلِكَ، وَانْصَرَفَ عَنْهُ وَاَللهُ أَعْلَمُ". ( حَدِيثُ تَزْوِيجِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَدِيجَةُ رَضِيَ اللهُ عنها، ٢ / ٢٣٨ - ٢٣٩، ط: دار إحياء التراث العربي)

إعجاز القرآن للباقلاني  میں ہے:

"خطبة أبي طالب: "الحمد لله الذي جعلنا من ذرية إبراهيم، و زرع السماعيل، و جعل لنا بلدًا حرامًا، و بيتًا محجوجًا، و جعلنا الحكام على الناس، و أن محمداً بن عبد الله، ابن أخي، لايوازن به فتى من قريش إلا رجح به بركةً، وفضلاً و عدلاً و مجداً و نبلاً وإن كان في المال مقلاً، فإن المال عارية مسترجعة، و ضل زائل، وله في خديجة بنت خويلد رغبة ولها فيه مثل ذلك، و ما أردتم في ذلك فعليّ." ( ص: ١٠٣، قبيل باب: ايهما ابلغ... الشعر ام النثر؟!، ط: دار الكتب العلمية) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں