بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رخصتی کا کیا مطلب ہے؟


سوال

رخصتی کا کیا مطلب ہے؟ 

جواب

                                   رخصتی سے مراد لڑکی کا اپنے والدین کے گھر سے اپنے شوہر کے گھر کی طرف چلے جانا ہے. 

                                    لڑکی کی رخصتی کے لیے باقاعدہ طور پر بارات لے جانا، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت نہیں، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی (ایک) شادی میں دلہن کو لانے کے لیے ایک آدمی بھیجا ہے، خود دلہن کے گھر نہیں گئے۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا رخصتی کے بارے میں یہ بھی معمول تھا کہ لڑکی کاباپ یا ولی لڑکی کو تیار کرکے خود یا کسی اورمعتمد کے ہم راہ دولہا کے گھر پہنچا دیتا، جیسا کہ حضرت فاطمہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کی رخصتی سے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے۔

                                      حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے بارے میں بخاری شریف کی روایت میں آتا ہے کہ آپ کی والدہ آپ کو حضور ﷺ کے ہاں پہنچا کر آئیں۔ نہ آپ ﷺ خود تشریف لے گئے تھے، نہ آپ ﷺ نے کسی کو بھیجا تھا۔

صحیح البخاری (۷۷۵/۲):

              "عن عائشة رضي الله عنها: " تزوجني النبي ﷺ فأتتني أمي فأدخلتني الدار، فإذا نسوة من الأنصار في البيت، فقلن: على الخير والبركة، وعلى خير طائر".

                                          حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کے بارے میں واضح روایات ہیں کہ آپ کو امِ ایمن رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر روانہ کیا گیا اور ظا ہر ہے کہ حضرت امِ ایمن آپ ﷺ کی آزاد کردہ باندی تھیں، نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی۔ یعنی کہ لڑکی والوں کی طرف سے آپ کو چھوڑنے گئی تھیں، نہ کہ لڑکے والوں کی جانب سے لینے آئی تھیں.

اتحاف السائل بما لفاطمة من المناقب (ص: 3):

             "فجاءت مع أم أيمن، فقعدت في جانب البيت، وأنا في الجانب الآخر، فجاء النبي صلى الله عليه وسلم فقال: (ها هنا أخي؟) قالت أم أيمن: أخوك وقد زوجته ابنتك؟! ... وفي روایة أخری: فزوجه فاطمة، فقبض ثلاث قبضات، فدفعها إلى أم أيمن فقال: اجعلي منها قبضةً في الطيب، والباقي فيما يصلح للمرأة من المتاع، فلما فرغت من الجهاز، وأدخلتها بيتاً قال: يا على، لاتحدثن إلى أهلك شيئاً حتى آتيك".

                                       اور یہ بھی ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو دلہن کو لینے کے لیے بھیجا ہے۔ جیسا کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں پیش آیا.

وفي الاستیعاب في معرفة الأصحاب (۴۰۱/۴۔ ۴۰۲):

         "وروی عن سعید عن قتادة أن النجاشي زوج النبي صلی الله علیه وسلم أم حبیبة بنت أبي سفیان رضي الله عنهما بأرض الحبشة وأصدق عنه بمائتي دینار ... (إلی أن قال:) زوجها إیاه النجاشي وجهزها إلیه وأصدقها أربعمائة دینار، و أولم علیها عثمان بن عفان لحماً وثریداً، وبعث إلیها رسول الله صلی الله علیه وسلم شرحبیل ابن حسنة، فجآء بها ..." الخ

                            لہذا نکاح اور رخصتی کابہترطریقہ یہ ہے کہ مسجد میں نکاح کیا جائے،  پھر نکاح کے بعد لڑکی کو اس کے محارم کے ذریعے دولہا کے گھر پہنچا دیا جائے اور اگر خود دولہا اور اس کے گھر والے جا کر دلہن کو لے آئیں تو یہ بھی جائز ہے ،اس میں بھی شرعاً کوئی حرج نہیں۔اور اس موقع پر اگر رشتہ دار خواتین وحضرات اور دوست واحباب جمع ہوجائیں اور غیر شرعی امور وبے جا تکلفات سے اجتناب کیا جائے تو اس میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ۔ البتہ بوقتِ رخصتی سادگی اختیار کرنا بہتر ہے،خرافات اور ناجائز کاموں سے اجتناب لازم ہے ۔غرض اسلامی مزاج یہ ہے کہ جتنی سادگی اور بے تکلفی سے آدمی اس ذمہ داری سے سبک دوش ہو یہ زیادہ بہتر اور قابلِ ستائش ہے۔ اس میں میزبانوں کے لیے بھی آسانی ہے اور مہمانوں کی بھی راحت ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200217

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں