بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

رجوع کی صورت میں تجدیدِ نکاح


سوال

زید نے طلاقِ رجعی میں دورانِ عدت رجوع بصورتِ تجدیدِ نکاح بمع حقِ مہر اور گواہان کیا۔ کیا اس عمل میں کوئی شرعی قباحت تو نہیں کی زید نے؟

جواب

رجوع کے لیے زبان سے کہہ دینا کہ میں نے اپنی بیوی سے رجوع کیا  یا بیوی جیسا معاملہ کرنا بھی کافی تھا،  تاہم تجدیدِ نکاح سے بھی رجوع ہوجائے گا شرعاً اس میں حرج نہیں ہے۔

البحرالرائق میں ہے:

’’وأما ركنها: فقول أو فعل، فالأول صريح وكناية، أما الأول: فراجعتك وراجعت امرأتي، وجمع بينهما ليفيد ما إذا كانت حاضرةً فخاطبها أو غائبةً، وارتجعتك ورجعتك ورددتك، وأمسكتك ومسكتك فيصير مراجعًا بلا نية، ومنه النكاح والتزوج. وأما الكناية: فنحو أنت عندي كما كنت أو أنت امرأتي فيتوقف على النية‘‘. (البحر الرائق:4/ 54) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200696

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں