بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

راستے میں پیسے مل جائیں اور اس سے کچھ خریدے تو کیا حکم ہے؟


سوال

اگر کسی کو راستے میں پیسے مل جائیں اور اس سے کسی چیز کو خریدے تو کیا اس کا استعمال جائز ہے؟

جواب

اگر کسی شخص کو راستے میں پیسے مل جائیں تو وہ ’’لقطہ‘‘  کے حکم میں ہے، اور لقطے  کا حکم یہ ہے کہ اسے مالک تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے، اعلان کیا جائے، لیکن اگر  اس کا مالک نہ ملے اور یہ غالب گمان ہو کہ اب مالک اسے لینے نہیں آئے گا اور مزید وقت اس کی حفاظت کا انتظام کرنا مشکل ہو تو اسے صدقہ کرنا ضروری ہے۔  جس شخص کو رقم ملی ہے اگر وہ فقیر ہے تو وہ خودبھی استعمال کرسکتا ہے، لیکن اگر وہ فقیر نہیں تو خود استعمال نہیں کرسکتا۔ تاہم صدقہ کرنے یا خود فقیر ہونے کی صورت میں استعمال کرنے کے بعد اصل مالک آجائے اور وہ اپنی چیز یا رقم کا مطالبہ کرے تو تاوان ادا کرنا ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( وعرف ) أي نادى عليها حيث وجدها وفي المجامع ( إلى أن علم أن صاحبها لا يطلبها أو أنها تفسد إن بقيت كالأطعمة ) والثمار ( كانت أمانة ) لم تضمن بلا تعد فلو لم يشهد مع التمكن منه أو لم يعرفها ضمن إن أنكر ربها أخذه للرد وقبل الثاني قوله بيمينه وبه نأخذ حاوي وأقره المصنف وغيره ( ولو من الحرم أو قليلة أو كثيرة ) فلا فرق بين مكان ومكان ولقطة ولقطة ( فينتفع) الرافع ( بها لو فقيرا وإلا تصدق بها على فقير ولو على أصله وفرعه وعرسه إلا إذا عرف أنها لذمي فإنها توضع في بيت المال ) تاترخانية و في القنية لو رجا وجود المالك وجب الإيصاء ( فإن جاء مالكها ) بعد التصدق ( خير بين إجازة فعله ولو بعد هلاكها) وله ثوابها ( أو تضمينه )".

و في الرد:

"(قوله: ولقطة ولقطة ) أي لا فرق بينهما أي في وجوب أصل التعريف ليناسب قوله إلى أن علم أن صاحبها لايطلبها؛ فإنه يقتضي تعريف كل لقطة بما يناسبها بخلاف ما مر عن ظاهر الرواية من التعريف حولاً للكل". ( الدر المختار ، کتاب اللقطة 4 / 278 ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں