بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دو وطنِ اصلی ہوں تو قصر کا حکم


سوال

اگر کسی کے دو گھر ہوں، کبھی ایک میں رہتا ہو اور کبھی دوسرے میں، اس کے درمیان کا سفر شرعی ہو تو کہاں قصر نماز پڑھے گا؟

جواب

اگر کسی شخص کے دو علاقوں میں گھر ہوں اور دونوں علاقوں کے متعلق اس کی یہ نیت ہو کہ وہ اس کے وطن ہیں تو وہ دونوں جگہوں پر مکمل نماز پڑھے گا، اگر چہ دونوں علاقوں کے درمیان مسافت سفر ہو اور اس کی مدت اقامت پندرہ دن سے کم ہو۔

لیکن اگر اس کی نیت صرف ایک علاقے کو وطن بنانے کی ہو تو جس علاقے کے متعلق اس نے وطن بنانے کی نیت نہ کی ہو اگروہ وہاں پندرہ دن سے کم کے لیے ٹھہرے گا تو قصر نماز پڑھے  گا اور اگر  پندرہ دن یا اس سے زیادہ کا قیام کا ارادہ ہو تو اتمام کرے گا۔

بہر دو صورت اگر دونوں وطن کے درمیان مسافتِ سفر سے زیادہ سفر ہے (مثلاً: کراچی اور اسلام آباد)، اور درمیان میں چار رکعت والی نماز کا وقت آتاہے تو دورانِ سفر  وہ نماز قصر ادا کی جائے گی۔

"(قوله: ويبطل الوطن الأصلي بمثله لا السفر، ووطن الإقامة بمثله والسفر والأصلي)؛ لأن الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه فلايصلح مبطلاً له وروي أن عثمان رضي الله عنه كان حاجاً يصلي بعرفات أربعاً فاتبعوه فاعتذر، وقال: إني تأهلت بمكة، وقال النبي ﷺ: من تأهل ببلدة فهو منها، والوطن الأصلي هو وطن الإنسان في بلدته أو بلدة أخرى اتخذها داراً وتوطن بها مع أهله وولده وليس من قصده الارتحال عنها بل التعيش بها، وهذا الوطن يبطل بمثله لا غير، وهو أن يتوطن في بلدة أخرى وينقل الأهل إليها، فيخرج الأول من أن يكون وطناً أصلياً حتى لو دخله مسافراً لايتم قيدنا بكونه انتقل عن الأول بأهله لأنه لو لم ينتقل بهم ولكنه استحدث أهلاً في بلدة أخرى، فإن الأول لم يبطل ويتم فيهما، وقيد بقوله: بمثله؛ لأنه لو باع داره ونقل عياله وخرج يريد أن يتوطن بلدةً أخرى، ثم بدا له أن لايتوطن ما قصده أولا ويتوطن بلدةً غيرها، فمر ببلده الأول، فإنه يصلي أربعاً؛ لأنه لم يتوطن غيره. وفي المحيط: ولو كان له أهل بالكوفة وأهل بالبصرة فمات أهله بالبصرة وبقي له دور وعقار بالبصرة، قيل: البصرة لاتبقى وطناً له؛ لأنها إنما كانت وطناً بالأهل لا بالعقار، ألا ترى أنه لو تأهل ببلدة لم يكن له فيها عقار صارت وطناً له، وقيل: تبقى وطناً له؛ لأنها كانت وطناً له بالأهل والدار جميعاً، فبزوال أحدهما لايرتفع الوطن كوطن الإقامة تبقى ببقاء الثقل وإن أقام بموضع آخر اهـ وفي المجتبى: نقل القولين فيما إذا نقل أهله ومتاعه وبقي له دور وعقار، ثم قال: وهذا جواب واقعة ابتلينا بها، وكثير من المسلمين المتوطنين في البلاد ولهم دور وعقار في القرى البعيدة منها يصيفون بها بأهلهم ومتاعهم فلا بد من حفظها أنهما وطنان له لايبطل أحدهما بالآخر". ( البحر الرائق، كتاب الصلاة، باب صلاة المسافر ۲/ ۱۳٦ ط: سعيد) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں