بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دو بیویوں میں برابری کے باوجود پہلی بیوی کا طلاق کے مطالبہ کا حکم


سوال

ایک شخص کی شادی کو کچھ عرصہ گذر چکا تھا اور وہ اپنی زندگی سے پوری طرح مطمئن نہیں تھا۔ بیوی سے اس کی پوری طرح ہم مزاجی نہیں تھی اور اس کے خیال میں بیوی کا مزاج غصیلا اور ضدی تھا۔۔۔ اس شخص کو اپنی ایک کولیگ پسند آٴی اور اس نے بیوی سے اجازت لینے اور کچھ وعدے کرنے کے بعد دوسری شادی کر لی۔ بیوی یہ کہتی ہے کہ وہ سمجھتی تھی کہ اس نے اولاد چھین لینے کی دھمکی دے کر یہ اجازت لی تھی جبکہ اس نے کبھی بھی یہ دھمکی نہیں دی تھی ۔ مالی اعتبار سے آسودگی ہے اور تمام ضروریات پوری ہو رہی ہیں۔ بیوی کی شرط کے مطابق دوسری بیوی کو اسی گھر میں الگ فلور پر ایک چھوٹے سے پورشن میں رکھا ہے۔ مسٗلہ یہ ہے کہ بیوی کا مزاج ایسا ہے کہ وہ ہر شے میں اعتراض کر کے برابری کا سوال اٹھاتی ہے۔ بہت سارے معاملات میں، بالخصوص مالی معاملات میں تو شوہر پہلی بیوی ہی کو زیادہ دے رہا ہے۔ مگر اس کو دوسری بیوی سے محبت زیادہ ہے۔ ان وجوہات پر پہلی بیوی ہر وقت لڑتی جھگڑتی اور اعتراضات کرتی ہے اس بنیاد پر شوہر کی مزاجی دوری بڑھ گٴئ ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگرچہ شوہر نے پوری طرح وقت اور راتوں کی برابر تقسیم کی ہے، مگر جب بھی مسٗلہ بڑھتا ہے تو نفسیاتی طور پر دوری ہو جانے کی وجہ سے شوہر حقوق زوجیت ادا نہیں کر پاتا۔ یہ بات بار بار ہو چکی اور عملا ثابت ہو چکی کہ شوہر جب تعلقات صحیح ہوں تو حقوق زوجیت ادا کر پاتا ہے، ورنہ نہیں۔ نیت بالکل واضح ہے۔ شوہر اللہ کی خاطر اور بچوں کی خاطر اور خود پہلی بیوی کی خاطر اس کی تمام تر باتیں، کوسنے اور گالیاں برداشت کرتا ہے اور خود کبھی بری زبان، ڈانٹ ڈپٹ یا مارپیٹ کا سہارا نہیں لیتا۔۔ صرف بیوی ناراض ہو کر گھر سے نکلنے لگے، جو اکثر ہوتا ہے، تو اس کو پکڑ کر روک لیتا ہے۔۔ بچوں کی تعلیم و تربیت (دو بچے بڑے ہو رہے ہیں اور ایک بچی چار سال سے بھی کم ہے) اور ان کی زندگی تباہ نہ ہونے کے خیال اور پہلی بیوی کی زندگی تباہ نہ ہونے کے خیال سے شوہر یہ سب چیزیں برداشت کرتا ہے۔ اس کی مالی حیثیت سسرال سے بہت بہتر ہے اور بچوں اور بیوی کی مالی ضروریات، عادات کے اعتبار سے، سسرال اسکی بیوی اور بچوں کے اخراجات ادا کرنے کے بالکل بھی قابل نہیں ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ اگر ان سب حالات میں شوہر پہلی بیوی کو اس کے بار بار کے مطالبوں (غصے کی حالت میں ) بھی طلاق نہیں دیتا ہے اور وقت کی برابر تقسیم کے باوجود حقوق زوجیت بہت کم ادا کر پاتا ہے تو کہیں وہ گناہگار تو نہیں۔ اور کیا بیوی کی خواہش پر اس کی نظر میں برابری نا ہونے کے باعث طلاق دینا ضروری تو نہیں؟ اصل خوف یہ دامنگیر ہے کہ کہیں نیت صاف ہونے کے باوجود برابری نہ ہو پانے ( یا بیوی کی نظر میں برابری نہ ہو پانے) کی وجہ سے وہ گناہگار تو نہیں ہو گا، اور کیا ایسی صورت میں اس کو طلاق دے دینی چاہیے؟ جزاک اللہ

جواب

دو نوں بیویوں میں وقت اور  حقوق کی منصفانہ تقسیم کے بعد اگر شوہر کا قلبی جھکاو اور میلان کسی ایک طرف ہو اور اس وجہ سے ازدواجی تعلقات میں برابری نہ ہوپاتی ہو تو اس پر شوہر کا مواخذہ نہیں ہوگا،نیز ایسی صورت میں پہلی بیوی کا طلاق کا مطالبہ کرنا بھی بےجا ہے اور نہ ہی شوہر اس کو طلاق دینے کا پابند ہے۔ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143608200005

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں