بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دنیا میں یاجوج ماجوج کا وجود کہاں ہے؟


سوال

سائنس نے اتنی ترقی کرلی ہے کہ اب دنیا کا کوئی گوشہ بنی نوع انسان سے چھپا ہوا نہیں ہے، ’’یاجوج ماجوج ‘‘  کی پیش گوئی کے سلسلے میں تحریری روایات کے مطابق یہ دونوں قومیں ’’سد سکندری‘‘  کو توڑ کر دنیا میں پھیل جائیں گی۔ مگر  بظاہر کوئی قابلِ  ذکر  منطقہ ایسا نہیں جہاں یہ قوم یا قومیں رہتی ہوں،  کیا یہ ممکن ہے کہ ہماری کتابوں میں صحیح  تفاسیر  نہ بیان کی گئی ہوں، اور یاجوج ماجوج بھارتیوں اور چینی قوموں  کی  شکل میں دنیا میں پھیل چکے ہوں؟ اور قیامت کے قریب تباہیاں پھیلائیں گے؟

جواب

’’یاجوج ماجوج‘‘  یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں۔  ذوالقرنین بادشاہ نے ان کے راستے کو جو دو پہاڑوں کے درے میں تھا، ایک آہنی دیوار سے  مستحکم بند کردیا تھا ، قربِ قیامت میں وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ غارت گر قوم دنیا میں پھیل جائے گی، کوئی ان سے مقابلہ نہ کر سکے گا،  آخر آسمانی وبا سے خود بخود مرجائیں گے۔

یاجوج ماجوج کا آخری زمانے میں نکلنا علمِ الٰہی میں طے شدہ ہے اور یہ کہ ان کا خروج قیامت کی نشانی کے طور پر قربِ قیامت میں ہوگا۔ اسی بنا پر حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کے خروج کو قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں شمار کیا گیا ہے، اور بہت سی احادیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ان کا خروج سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ہوگا۔

قرآن وحدیث کی تصریحات سے یہ بات ثابت ہے کہ یاجوج ماجوج کا وجود ہے،اور  جب اللہ کے علم میں طے شدہ وقت پورا ہوجائے گا تو وہ اللہ کے حکم سے زمین پر نکلیں گے،  چوں کہ ان کا جغرافیائی محل وقوع یعنی  سد ذوالقرنین کس جگہ واقع ہے؟  اور قومِ یاجوج وماجوج کون سی قوم ہے؟  اور اس وقت کہاں کہاں بستی ہے؟  اس پر شریعت کے اَحکام کا مدار نہیں ہے، نہ ہی اس پر نجات کا مدار ہے، اور نہ ہی اس پر کوئی اسلامی عقیدہ موقوف ہے،   اس لیے اس کا صراحتاً  ذکر نہیں کیا گیا، ایمان لانے اور اعتقاد رکھنے کی چیز صرف اتنی ہی ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ میں آگئی ہے۔

باقی یہ دعوی کہ سائنس  کی ترقی کی وجہ سے اب دنیا کا کوئی چپہ چھپا نہیں بچا، یہ دعوی غلط اور بے دلیل ہے،   جس دیوار کی اور جس قوم کی حق تعالیٰ نے خبر دی ہے  وہ صحیح اور درست ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کی تصدیق فرض ہے، مگر ہم کو اس دیوار کا موقعہ اور محل معلوم نہیں،  بلاشبہ عقلًا یہ ممکن ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان میں بڑے بڑے سمندر اور بڑے بڑے  پہاڑ حائل ہوں اور فضلائے جغرافیہ کا یہ دعویٰ کہ ہم نے تمام زمین کو چھان ڈالا اور ہم بر اور بحر اور خشکی اور تری کا احاطہ کرچکے ہیں اور اب کوئی جگہ ہم سے بچی ہوئی نہیں رہی۔ سو یہ محض دعویٰ ہے، ساری زمین کو چھان مارنا اور دیکھ ڈالنا تو بڑی بات ہے،  ابھی تک پوری آباد زمین کو بھی نہیں دیکھا جاسکا،  زمین کا بہت سا حصہ ابھی ایسا باقی ہے جہاں تک ان کا قدم نہیں پہنچا، ابھی تک اطرافِ زمین میں بہت سے پہاڑ اور وادیاں ایسی موجود ہیں کہ ان تک فضلاءِ جغرافیہ کی رسائی نہیں ہوئی، خصوصاً  شمال کی طرف برفانی پہاڑوں کے پیچھے اور منطقہ باردہ  کی جانب ایسی زمین موجود ہے جہاں آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ زمین کی تہہ میں بھی ایک مخصوص حد کے بعد انسانی رسائی اب تک نہیں ہوپائی ہے۔

ان سب باتوں سے قطع نظر قدرتِ خدواندی کے پیشِ نظر، یہ بھی ممکن ہے کہ کسی منتہائے خطہ ارض میں انسانوں کی فضائی یا زمینی رسائی کے باوجود اللہ تبارک وتعالیٰ قومِ یاجوج و ماجوج کو انسانی نگاہوں اور دست رس سے پوشیدہ رکھیں، اور ہمیں ان سے مخفی رکھیں۔ جنات ہمارے درمیان رہتے ہیں، اور بعض اوقات ان کی غذا ظاہری اور محسوس اشیاء بھی ہوتی ہیں، لیکن اس کے باوجود قدرتِ خدواندی سے وہ ہمیں نظر نہیں آتے؛ اس لیے کسی چیز کا نظر نہ آنا معدوم ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا؛  نگاہوں سے دکھوانا اور نگاہوں کے درمیان پردے ڈال دینا، خداوندتعالیٰ کے لیے دونوں برابر ہیں۔

یاجوج ماجوج اور ان کے محل وقوع سے متعلق محققین اور اہلِ جغرافیہ کے تخمینوں کی تفصیل، اور دنیا میں موجود بڑی بندوں (دیواروں) سے متعلق سیر حاصل بحث کے مطالعہ کے لیے سورۂ کہف کی آیت 83 تا 99 تک مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ کی ’’معارف القرآن‘‘، اور مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘،  نیز مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی صاحب کی کتاب ’’قصص القرآن‘‘ میں ذوالقرنین کے قصے کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200201

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں