بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دل دل میں نذر ماننا


سوال

اگر کوئی شخص دل میں ہی منت یا نذر مانے کہ مثلاً: ’’اگر میں نے فلاں گناہ دوبارہ کیا تو میں 500 روپے صدقہ کروں گا‘‘۔تو دل میں ایسے کہنے سے کیا صدقہ کرنا لازم ہو گا؟

اوراگر وہ مذکورہ الفاظ دل میں کہنے کے بعد کسی کو زبان سے یہ بتائے کہ ’’اگر میں نے فلاں گناہ دوبارہ کیا تو میں 500 روپے صدقہ کروں گا‘‘  تو کیااس سے نذر ہوگی؟پھر ہر بار 500صدقہ کرنا ہوگا یا ایک بار؟

جواب

جب تک زبان سے منت کے لیے الفاظ استعمال نہ کرے اس وقت تک دل ہی دل میں قسم یامنت ماننے سے قسم یا منت منعقد نہیں ہوتی، لہذا محض دل ہی دل میں یہ نیت کرنا کہ فلاں گناہ ہواتو 500صدقہ کروں گا اس سے منت لازم نہ ہوگی۔

البتہ زبان سے کسی کے سامنے یہ الفاظ ادا کرنا کہ ’’اگر میں نے فلاں گناہ دوبارہ کیا تو میں 500 روپے صدقہ کروں گا‘‘ اس سے نذر منعقد ہوجائے گی، اور پھر شرط پائی گئی یعنی اس گناہ کا صدور ہوگیا تو 500روپے صدقہ کرنے ہوں گے، البتہ ان الفاظ کے ذریعہ ایک ہی بارنذر منعقد ہوگی، اور ایک بار صدقہ کرنے سے منت پوری ہوجائے گی۔

ہاں! اگر یہ الفاظ استعمال کیے کہ جب جب فلاں گناہ کا صدور ہوا یا جب کبھی بھی فلاں گناہ کیا تو 500روپے صدقہ کروں گا، اس صورت میں ہر بار صدقہ لازم ہوگا۔

البحرالرائق میں ہے:

"وركنها اللفظ المستعمل فيها، وشرطها العقل والبلوغ". (4/300)

بدائع الصنائع میں ہے :

"( فصل ): وأما ركن اليمين بالله تعالى فهو اللفظ الذي يستعمل في اليمين بالله تعالى". (6/210)

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله: ومن نذر نذرًا مطلقا، أو معلقًا بشرط ووجد وفى به) أي وفى بالمنذور؛ لقوله عليه السلام: {من نذر وسمى فعليه الوفاء بما سمى} وهو بإطلاقه يشمل المنجز والمعلق؛ ولأن المعلق بالشرط كالمنجز عنده أطلقه، فشمل ما إذا علقه بشرط يريد كونه أو لا، وعن أبي حنيفة أنه رجع عنه، فقال: إن فعلت كذا فعلي حجة، أو صوم سنة، أو صدقة ما أملكه أجزأه عن ذلك كفارة يمين، وهو قول محمد، ويخرج عن العهدة بالوفاء بما سمى أيضًا إذا كان شرطًا لايريد كونه؛ لأن فيه معنى اليمين وهو المنع وهو بظاهره نذر، فيتخير ويميل إلى أي الجهتين شاء، بخلاف ما إذا كان شرطًا يريد كونه كقوله: إن شفى الله مريضي لانعدام معنى اليمين فيه، قال في الهداية: وهذا التفصيل هو الصحيح، وبه كان يفتي إسماعيل الزاهد، كما في الظهيرية. وقال الولوالجي: مشايخ بلخ وبخارى يفتون بهذا، وهو اختيار شمس الأئمة - ولكثرة البلوى في هذا الزمان -". (12/198)

وفیہ ایضاً:

"( قوله: ففيها إن وجد الشرط انتهت اليمين) أي في ألفاظ الشرط إن وجد المعلق عليه انحلت اليمين، وحنث وانتهت؛ لأنها غير مقتضية للعموم والتكرار لغةً فبوجود الفعل مرةً يتم الشرط، ولايتم بقاء اليمين بدونه، وإذا تم وقع الحنث فلايتصور الحنث مرةً أخرى إلا بيمين أخرى أو بعموم تلك اليمين". (10/72)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200679

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں