بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

دعوت کے بعد دعامانگنے کا حکم


سوال

ہمارے علاقے میں اکثر لوگ کسی کے پاس دعوت کھانے کے بعد آخر میں کسی ایک کو اجتماعی دعا کرانے کا کہہ کر سب لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں، کیا اس کا ثبوت ہے؟ ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

مختلف مواقع پر شریعت نے جو دعائیں تلقین کی ہیں ان میں اصل یہ ہے کہ ہاتھ نہ اٹھائے جائیں، تاہم اجتماعی دعا ہو اورہاتھ اٹھاکر  کرلی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں اوراحادیث میں اس کا ثبوت ہے ،اس لیے کسی کے ہاں کھاناکھانے کے بعد دعاکرناجائزہے اور اس میں ہاتھ بھی اٹھائے جاسکتے ہیں،البتہ اس کاالتزام درست نہیں ہے۔سنن ابی داؤد شریف کی ایک روایت میں موجودہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کے ہاں ضیافت کے موقع پر ان کےلیے ہاتھ اٹھاکردعابھی فرمائی تھی۔ملاحظہ ہو:

’’حضرت قیس بن سعد فرماتے ہیں کہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمارے گھر میں ہم سے ملاقات فرمائی اور آ  کر فرمایا کہ: السَّلَامُ عَلَيْکُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ قیس کہتے ہیں کہ: میرے والد سعد نے آہستہ سے جواب دیا۔ قیس کہتے ہیں کہ: میں نے کہا :کیا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت نہیں دے رہے ؟انہوں نے جواب دیا کہ: صبر کرو ،میں چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر زیادہ بار سلام کریں ۔چناں چہ  حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ فرمایا کہ: السلام علیکم ،حضرت سعد نے پھر آہستہ سے جواب دیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیسری بارفرمایا کہ: السلام علیکم ۔ پھر آپ علیہ الصلاۃ والسلام  واپس لوٹ گئے تو سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ   آپ کے پیچھے گئے اور عرض کیاکہ: یا رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کے سلام کی آواز سن رہا تھا اور آہستہ سے جواب دے رہا تھا تاکہ آپ ہم پر کثرت سے سلام فرمائیں۔ قیس کہتے ہیں کہ: حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے ساتھ واپس تشریف لائے اور سعد نے آپ کے لیے پانی وغیرہ کے بندوبست کا حکم دیا، آپ نے غسل فرمایا ،پھر سعد نے آپ کو زعفران اور ورس میں رنگی ہوئی ایک چادر دی جسے آپ نے لپیٹ لیا، پھر آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور آپ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! اپنی رحمت اور برکت نازل فرماسعد بن عبادہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی اولاد پر ۔ قیس کہتے ہیں کہ: پھر آپ نے کھانا کھایا جب آپ نے واپسی کا ارادہ فرمایا تو حضرت سعد نے ایک گدھا سواری کے لیے  پیش کیا جس پر ایک چادر پڑی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر سوار ہوئے تو سعد نے فرمایا اے قیس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوجا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ: سواری پر ساتھ سوار ہو جاؤ، میں نے انکار کیا تو فرمایا کہ سوار ہو جاؤ ورنہ واپس لوٹ جاؤ ،قیس کہتے ہیں کہ میں لوٹ گیا‘‘۔

ایک اور روایت میں ہے کہ: حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ: ابوالہیثم بن التیہان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے کھانا بنایا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو دعوت دی ،جب سب لوگ کھانے سے فارغ ہو گئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے  فرمایا کہ اپنے بھائی کو اس کھانے کا بدلہ دو، صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا بدلہ کیا ہے؟ فرمایا کہ: جب کوئی شخص کسی کے گھر میں جائے اور اس کا کھانا کھائے اس کا پانی پیے اور اس کے واسطے دعا کرے یہی اس کا بدلہ ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143804200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں