بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

"ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا" دعا


سوال

{رَبَّنَا ظَلَمْنَا اَنْفُسَنَا وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا} یہ دعا صرف آدم علیہ السلام کی طرف منسوب  ہے یا حوا کی طرف ؟ یا دونوں کی طرف منسوب ہے؟ 

جواب

سوال میں ذکر کردہ دعا حضرت آدم و حوا علیہما السلام دونوں کی جانب منسوب ہے، سورہ اعراف آیت نمبر  23  میں اللہ رب العزت نے اس نسبت کی خود صراحت فرمائی ہے، ارشادِ باری تعالی ہے:

{قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَـنَا وَتَرْحَمْنَا لَـنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ}

ترجمہ: بولے وہ دونوں اے ہمارے  رب!  ہم نے اپنی جان پر ظلم کیا ، اور اگر تو ہم کو نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور  تباہ ہوجائیں گے۔

نیز سورہ بقرہ میں ہے:

{فَتَلَقّٰى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّه كَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ‌ؕ اِنَّه هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ‏} [البقرة: 37]

معارف القرآن میں ہے:

’’ترجمہ: پھر سیکھ لیں آدم نے اپنے رب سے چند باتیں، پھر متوجہ ہوگیا اللہ اس پر، بے شک وہی ہے توبہ قبول کرنے والا مہربان۔

تفسیر: خلاصہ تفسیر :

بعدازاں حاصل کرلیے حضرت آدم (علیہ السلام) نے اپنے رب سے چند الفاظ (یعنی معذرت کے کلمات کہ وہ بھی اللہ تعالیٰ ہی سے حاصل ہوئے تھے حضرت آدم (علیہ السلام) کی ندامت پر اللہ تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوئی اور خود ہی معذرت کے الفاظ تلقین فرمادیے) تو اللہ تعالیٰ نے رحمت کے ساتھ توجہ فرمائی ان پر (یعنی توبہ قبول کرلی) بے شک وہی ہیں بڑی توبہ قبول کرنے والے بڑے مہربان (اور حضرت حوّا کی توبہ کا بیان سورۂ اعراف میں ہے {قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا} جس سے معلوم ہوا کہ وہ بھی توبہ اور قبولِ توبہ میں حضرت آدم (علیہ السلام) کے ساتھ شریک رہیں، ... پچھلی آیات میں شیطانی وسوسہ اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی لغزش اور اس کے نتیجہ میں جنت سے نکلنے اور زمین پر اترنے کا حکم مذکور تھا، حضرت آدم (علیہ السلام) نے ایسے خطاب و عتاب کہاں سنے تھے نہ ایسے سنگ دل تھے کہ اس کا سہار کرجاتے، بےچین ہوگئے اور فوراً ہی معافی کی التجا کرنے لگے، مگر پیغمبرانہ معرفت اور اس کی وجہ سے انتہائی ہیبت سے کوئی بات زبان سے نہ نکلتی تھی یا اس خوف سے کہ معافی کی التجا کہیں خلافِ شان ہو کر مزید عتاب کا سبب نہ بن جائے، زبان خاموش تھی، اللہ رب العزت دلوں کی بات سے واقف اور رحیم و کریم ہیں، یہ حالت دیکھ کر خود ہی معافی کے لیے کچھ کلمات ان کو سکھا دیے،  ...  وہ کلمات جو حضرت آدم (علیہ السلام) کو بغرضِ توبہ بتلائے گئے کیا تھے، اس میں مفسرین صحابہ سے کئی روایات منقول ہیں مشہور قول حضرت ابن عباس کا ہے کہ وہ کلمات وہی ہیں جو قرآن مجید میں دوسری جگہ منقول ہیں یعنی {قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَـنَا وَتَرْحَمْنَا لَـنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ} (٢٣: ٧) ...  بعض سلف سے پوچھا گیا کہ جس شخص سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے وہ کیا کرے تو فرمایا وہی کام کرے جو اس کے پہلے والدین آدم وحوّا (علیہما السلام) نے کیا کہ اپنے کیے پر ندامت اور آئندہ نہ کرنے کے عزم کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی کے لیے عرض کیا {قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا} (یعنی ہمارے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کرلیا ہے اگر آپ معاف نہ کریں اور ہم پر رحم نہ کریں تو ہم سخت خسارہ والوں میں داخل ہوجائیں گے) ... 

فائدہ:حضرت آدم وحوا سے جو اجتہادی لغزش یا بھول صادر ہوئی ہے اولاً تو قرآنِ کریم نے دونوں ہی کی طرف اس کی نسبت کی ہے، {فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا} اور زمین پر اترنے کے حکم میں بھی حضرت حوّا کو شریک کرکے لفظ اِهْبِطُوْا فرمایا ہے، مگر بعد میں توبہ اور قبولِ توبہ میں بہ لفظِ مفرد صرف حضرت آدم (علیہ السلام) کی طرف کرکے کیا گیا ہے ... ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ رعایت ہو کہ  عورت کو اللہ تعالیٰ نے مستور رکھا ہے؛ اس لیے بطور پردہ پوشی کے گناہ اور عتاب کے ذکر میں اس کا ذکر صراحۃً نہیں فرمایا اور ایک جگہ {رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا} میں دونوں کی توبہ کا ذکر بھی کردیا گیا؛ تاکہ کسی کو یہ شبہ نہ رہے کہ حضرت حوّا کا قصور معاف نہیں ہوا، اس کے علاوہ عورت  چوں کہ اکثر احوال میں مرد کے تابع ہے، اس لیے اس کے مستقل ذکر کی ضرورت نہیں سمجھی گئی‘‘. (قرطبی)

تفسیر قرطبی میں ہے:

’’الرابعة : إن قيل: لم قال: عليه ولم يقل: عليهما، وحواء مشاركة له في الذنب بإجماع، وقد قال: {ولاتقربا هذه الشجرة}، و {قالا ربنا ظلمنا أنفسنا}؟ فالجواب: أن آدم عليه السلام لما خوطب في أول القصة بقوله: {اسكن} خصه بالذكر في التلقي؛ فلذلك كملت القصة بذكره وحده، وأيضًا فلأنّ المرأة حرمة ومستورة، فأراد الله الستر لها؛ ولذلك لم يذكرها في المعصية في قوله: {وعصى آدم ربه فغوى}، وأيضًا لما كانت المرأة تابعةً للرجل في غالب الأمر لم تذكر كما لم يذكر فتى موسى مع موسى في قوله: {ألم أقل لك} وقيل: إنه دل بذكر التوبة عليه أنه تاب عليها إذ أمرهما سواء؛ قاله الحسن، وقيل: إنه مثل قوله تعالى: {وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها} أي التجارة؛ لأنها كانت مقصود القوم فأعاد الضمير عليها ولم يقل إليهما، والمعنى متقارب وقال الشاعر: رماني بأمر كنت منه ووالدي بريئًا ومن فوق الطوي رماني، وفي التنزيل: {والله ورسوله أحق أن يرضوه} فحذف إيجازًا واختصاراً‘‘.فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں