بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دعاء کرب کے اعراب سے متعلق سابقہ فتوی میں ایک اصلاح


سوال

فتویٰ نمبر 144111200554 میں دعاءِ کرب پر جو اعراب لگے ہیں، ترجمہ اس کے مطابق نہیں ہے۔رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمُ = جو عرش عظیم کا مالک ہےرَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمُ = عرش کریم کا رب ہے لفظ عظیم اور کریم پر پیش ہے، یہ دونوں لفظ رب کی صفت ہیں یا عرش کی؟ اگر ترجمہ صحیح ہے تو اعراب سمجھا دیں۔

جواب

 مذکورہ دعاء میں لفظ   عظیم اور کریم میں یہ اختلاف ہے کہ یہ عرش کی صفت ہے یا رب کی صفت ہے،  ابن تینؒ نے داودی سے نقل کیا ہے یہ دونوں  مرفوع ہیں اور رب کی صفت ہیں، جب کہ جمہور علماء کرام کے مطابق یہ دونوں لفظ  مجرور ہیں اور  عرش کی صفت ہیں، لہذا جمہور کی روایت کے مطابق ترجمہ درست تھا، البتہ متن پہلے قول کے مطابق نقل ہوگیا  تھا ، جس کی آپ نے نشان دہی فرمادی، اللہ آپ کو جزائے خیر عطاء فرمائے۔ سابقہ جواب میں تصحیح کردی گئی ہے۔

    درست اعراب کے مطابق دعا درج ذیل ہے:

’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ رَبُّ السَّمَاوَاتِ وَ رَبُّ الْأَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْکَرِیْمِ‘‘.

ترجمہ : اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے جو بڑا عظیم اور بردبار ہے، اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے جو عرش عظیم کا مالک ہے، اس اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں جو زمین و آسمان اور عرش کریم کا رب ہے۔

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (22 / 303):
حدَّثنا مُسَدَّدٌ حَدثنَا يَحْيَى عنْ هِشامِ بنِ أبي عبْدِ الله عنْ قَتادةَ عنْ أبي العالِيَةِ عنِ ابنِ عبَّاسٍ: أنَّ رسولَ الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم، كَانَ يَقُولُ عِنْد الكَرْب: لَا إِلَه إلاَّ الله العَظِيمُ الحَلِيمُ، لَا إِلَه إلاّ الله ربُّ العَرْشِ العَظِيمِ، لَا إِلَه إلاَّ الله ربُّ السَّمواتِ وربُّ الأرْضِ ورَبُّ العَرْشِ الكَرِيمِ.
هَذَا طَرِيق آخر فِي حَدِيث ابْن عَبَّاس الْمَذْكُور أخرجه عَن مُسَدّد عَن يحيى الْقطَّان عَن هِشَام بن عبد الله الدستوَائي ... إِلَى آخِره، وَهنا جَاءَ: (وَرب الْعَرْش الْكَرِيم) وَلَفظ: الْكَرِيم، بِالرَّفْع على أَنه صفة للرب على مَا نَقله ابْن التِّين عَن الدَّاودِيّ، وَفِي رِوَايَة الْجُمْهُور بِالْجَرِّ على أَنه نعت للعرش، وَوصف الْعَرْش هُنَا بالكريم أَي: الْحسن من جِهَة الْكَيْفِيَّة فَهُوَ ممدوح ذاتاً وَصفَة، وَفِي الحَدِيث السَّابِق وَصفه بالعظمة من جِهَة الكمية،

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (3 / 991):
 واختلف في كون (العظيم) : صفة للرب أو العرش، كما في قوله عليه الصلاة والسلام: "لا إله إلا الله رب العرش العظيم " نقل ابن التين، عن الداودي أنه رواه برفع العظيم، على أنه نعت للرب، والذي ثبت في رواية الجمهور على أنه نعت للعرش، وكذلك قراءة الجمهور في قوله تعالى: {رب العرش العظيم} [التوبة: 129] ، و {رب العرش الكريم} [المؤمنون: 116] بالجر".
 فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144112200551

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں