بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دارالکفر میں رہائش اختیار کرنا کیساہے ؟


سوال

"دارالکفر " میں رہائش اختیار کرنا کیساہے ؟

جواب

غیرمسلم  ممالک میں رہائش اور وہاں کی شہریت اختیار کرنے  کا مدار زمانہ و حالات اور رہائش  رکھنے  والے کی اغراض و مقاصد پر ہے، ان کے مختلف ہونے  سے حکم مختلف ہوجاتا ہے ۔جس کی مختصر تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔اپنے ملک کے ابتر حالات اور ظلم و ستم میں اگر کسی شخص کی جان و مال کی حفاظت مشکل ہوجائے اور ان مشکلات کی بنا پر وہ دارالکفر میں رہائش اختیار کرتا ہے اور وہاں پر بذات خود اپنے دین پر کاربند رہ سکتا ہے اور وہاں کے منکرات و فواحش سے خود کو محفوظ رکھ سکتا ہے تو اس کے لیے وہاں رہائش اختیار کرنے کی گنجائش ہے ۔جیساکہ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اپنے وطن میں مذہب کی بنیادپرانتقامی کارروائیوں اور حالات سے تنگ آکر جان کے تحفظ کے لیے اپنے حق میں نرم گوشہ رکھنے والے غیر مسلم ملک( حبشہ)میں پناہ لی تھی۔

۲ ۔اسلامی ممالک میں تلاش بسیار کے باوجود معاشی مسائل کا حل نہ ہوسکے اور غیر مسلم ملک میں جائز ملازمت اختیار کرنے کی غرض سے وہاں جائے تو یہ بھی جائز ہے، بشرطیکہ وہاں دین پر کاربند رہے۔

۳ ۔کفار کو تبلیغ دین اور اہل اسلام کی اصلاح کے لیے جانا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ محمود ومستحسن بھی ہے ۔متعدد صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسی غرض سے غیر مسلم ملک کی سکونت اختیار کی اور وہیں انتقال ہوا ۔

۴۔دارالکفر   بے حیائی کے طوفان میں گھرا ہوا ہو،اور کوئی شخص کسی نیک یا دینی مقصد کے لیے نہیں، بلکہ معیارِ زندگی بلند کرنے اور خوش حالی و عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے وہاں جاتا ہے ، یہ ترک وطن کراہت سے خالی نہیں، بلکہ خود کو منکرات و فواحش کے طوفان میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔بے حیائی اور فحاشی  اور دیگر منکرات کی موجودگی  میں مسلمان کافروں کے ساتھ گھل مل جاتا ہے اور دین سے دور نکل جاتاہے۔اسی بنا پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کفار کے درمیان اقامت(نیشنلٹی) اختیار کرنے کوکفار کی مماثلت قرار دیا ،جیساکہ ابو داؤد میں ہے:

’’باب فی الاقامۃ بأرض المشرک‘‘

’’قال رسول اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم:’’ من جامع المشرک وسکن معہ فإنہ مثلہ‘‘، آخر کتاب الجہاد ۔‘‘( سنن ابی داؤد ، کتاب الجھاد ، باب فی الاقامۃ بأرض المشرک ۔۲؍۳۸۵۔ط: میر محمد کتب خانہ)

حدیث مذکور میں اجتماع سے مراد ان کے ملک وشہر میں ایک ساتھ رہناہے، اسی بنا پر فقہا نے صرف ملازمت کے لیے دارالحرب جانے کو ناجائز لکھا ہے ۔

۵۔مسلمانوں پر بڑائی کے اظہار کے لیے دارالکفر کو دارا لا سلام پر ترجیح دینا ،گویا کفار کے طرز ِزندگی میں ان جیسا بننے کے لیے ایسا کرنا ہے جو کہ شرعاً حرام ہے ۔جیساکہ حدیث میں ہے:

'من تشبہ بقوم فھو منھم۔الحدیث۔( مشکوۃ المصابیح ، کتاب اللباس ، الفصل الثانی۔۲/۳۷۵۔ط: قدیمی کراچی)

باقی رہا علاج کے لیے جانا ظاہر ہے کہ یہ اہم ضرورت ہے اگر اپنے وطن میں ناممکن ہو تو تمام اعذار شرعیہ کے باوجود جانا جائز ہوگا۔

جہاں تک تعلیم وتربیت کا تعلق ہے ، یہ بڑا سنگین مسئلہ ہے، ظاہر ہے اس کے لیے رہائش اختیار کرنا ضروری ہے جن صورتوں میں رہائش اختیار کرنا مکرو ہ یا حرام ہے ان صورتوں میں تعلیم کے لیے جانا اور وہاں رہنا بھی مکروہ یا حرام ہوگا، اور جن صورتوں میں رہائش جائز ہے،ان صورتوں میں تعلیمی سفر بھی جائزہوگا۔ تاہم خصوصی توجہ کا اہتمام ضروری ہے ،اگر دینی، دنیوی اور تعلیمی ضروریات اپنے ملک میں پوری ہوسکتی ہوں تو بلا شبہ اس گندے ماحول سے دور رہا جائے ۔(فتاوی بینات،جلد سوم،عنوان:مغربی ممالک کی شہریت لینے کا حکم، جلد:3،ص:372تا378، ط:مکتبہ  بینات)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143904200065

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں