بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دادا کے کیے ہوئے نکاح میں خیارِ بلوغ حاصل نہیں


سوال

اگر ایک لڑکی کے  بچپن میں اپنے دادا نے رشتہ طےکیاہو اور لڑکی بلوغت یا میچور ہونےپر رشتہ کا انکار کرے کہ میں اس رشتے پرراضی نہیں تو کیا وہ اس بات میں حق بجانب ہے؟  اور گھر والے یعنی والدین وغیرہ اس پر زبردستی کریں کہ آپ نے وہ کرنا ہے جو ہم کہتے ہیں تو کیا یہ صحیح ہے؟ داداکا انتقال ہوچکا ہے۔

جواب

اگر کسی نابالغہ کا نکاح بچپن میں اس کے والد اور دادا کے علاوہ کوئی اور فردکروائے تو بلوغت کے بعد عورت کو اس نکاح کے فسخ کااختیار ہوتاہے،البتہ اگر والد یادادا بچپن میں کسی کا نکاح کروادیں تو شرعی طور پرلڑکی کو خیارِ بلوغ (یعنی بلوغت کے بعد اس نکاح کے فسخ کااختیار)حاصل نہیں ہوتا، اگرچہ والد، یادادا کاانتقال ہوجائے۔ 

رشتہ کے سلسلہ میں اولاد کو چاہیے کہ والدین کو اپنا خیرخواہ سمجھتے ہوئے ان کی پسند کو  اپنی پسند پر ترجیح دیں، اس لیے کہ عموماً والدین اور بزرگوں کے طے کردہ رشتے آگے چل کر خوش گوار ثابت ہوتے ہیں، ممکن ہے کہ ایک چیز فی الحال ناپسند ہو، لیکن بعد میں وہ خیر اور محبت کا ذریعہ بن جائے، اور جو رشتے وقتی جذبات سے مغلوب ہوکر کیے جاتے ہیں تجربہ شاہد ہے کہ عموماً وہ ناپائیدار ہوتے ہیں، وقتی پسند بعد میں ناپسندیدگی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

البتہ اگر باپ دادا  فاسق، فاجر، لالچی ہوں اور معاشرے میں اچھی شہرت کے حامل نہ ہوں اور انہوں نے ایسے مرد سے نکاح کروایا جو لڑکی کا  کفو (ہم پلہ)نہ ہو تو ان صورتوں میں لڑکی کو شرعاً فسخ کااختیار حاصل ہوگا۔اور اس صورت میں یہ شرط ہے کہ بلوغت یاسمجھ داری کے فوراً بعد لڑکی زبان سے اس نکاح کو فسخ کردے اور اس پر گواہ بھی بنالے۔اور پھر کسی مسلمان جج کی عدالت میں دعویٰ دائر کرکے گواہوں کے ذریعہ مذکورہ نکاح کو فسخ کرادے۔

البحرالرائق میں ہے :

"( قوله: ولهما خيار الفسخ بالبلوغ في غير الأب والجد بشرط القضاء) أي للصغير والصغيرة إذا بلغا وقد زوجا، أن يفسخا عقد النكاح الصادر من ولي غير أب ولا جد بشرط قضاء القاضي بالفرقة، وهذا عند أبي حنيفة ومحمد رحمهماالله ... بخلاف ما إذا زوجها الأب والجد؛ فإنه لا خيار لهما بعد بلوغهما؛ لأنهما كاملا الرأي وافرا الشفقة فيلزم العقد بمباشرتهما كما إذا باشراه برضاهما بعد البلوغ". (8/123)

فتاوی شامی میں ہے :

"( ولزم النكاح ولو بغبن فاحش ) بنقص مهرها وزيادة مهره ( أو ) زوجها ( بغير كفء إن كان الولي ) المزوج بنفسه بغبن ( أباً أو جدًا) وكذا المولى وابن المجنونة ( لم يعرف منهما سوء الاختيار ) مجانةً وفسقًا  ( وإن عرف لا) يصح النكاح اتفاقًا، وكذا لو كان سكران فزوجها من فاسق أو شرير أو فقير أو ذي حرفة دنيئة؛ لظهور سوء اختياره فلاتعارضه شفقته المظنونة، بحر". (3/66)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201379

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں